رشیدالدین
’’دہلی ہیٹ ٹرک‘‘ دہلی اسمبلی چناؤ کا بگل بجتے ہی سیاسی حلقوں میں دہلی کی ہیٹ ٹرک موضوع بحث بن چکی ہے۔ سیاسی مبصرین اور انتخابی ماہرین نے پیش قیاسی کی ہے کہ دہلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرتے ہوئے نریندر مودی اور بی جے پی کے ریکارڈ کی برابری کرلے گی ۔ دہلی کے ساتھ ہیٹ ٹرک کا جملہ جڑ چکا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ جب نریندر مودی وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر ہیٹ ٹرک کرسکتے ہیں تو دہلی میں اروند کجریوال کیوں نہیں ؟ چند ماہ قبل نریندر مودی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے اور دہلی کے رائے دہندے اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کو تیسری مرتبہ اقتدار سونپ سکتے ہیں۔ اگرچہ دونوں چناؤ مختلف ہیں لیکن رائے دہندوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ کجریوال کا ستارہ ضرور چمکے گا۔ نریندر مودی کو کس بنیاد پر عوام نے کامیاب کیا، واقعی یہ عوام کا فیصلہ تھا یا پھر مشینوں کی کامیابی، یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے لیکن عام آدمی پارٹی کی کامیابی کے لئے جواز بھی موجود ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی حکومت نے فلاحی اسکیمات اور عوام کی خدمت کے حوالے سے غیر معمولی کام کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے 70 رکنی دہلی اسمبلی کیلئے 5 فروری کو رائے دہی کا اعلان کیا جبکہ 8 فروری کو نتائج کا اعلان ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے شیڈول کی اجرائی سے قبل ہی دہلی میں سیاسی ماحول گرماچکا ہے اور اہم سیاسی پارٹیوں نے غیر معلنہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی کسی بھی صورت میں عام آدمی پارٹی کی ہیٹ ٹرک کو روکنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے پاس مرکزی حکومت کے ایسے کارنامے نہیں جن کو پیش کرتے ہوئے رائے دہندوں کو راغب کیا جاسکے۔ بی جے پی نے جب دیکھ لیا کہ مسائل کی بنیاد پر عام آدمی پارٹی کو شکست نہیں دی جا سکتی تو اس نے ہراسانی اور مقدمات جیسے حربوں کو اختیار کیا تاکہ عام آدمی پارٹی کے حوصلوں کو پست کیا جائے ۔ اروند کجریوال کے بشمول 16 اہم قائدین کو مختلف مقدمات میں پھنساکر جیل کی سیر کرائی گئی۔ اروند کجریوال ، منیش سیسوڈیا ، ستیندر جین ، سنجے سنگھ ، سومناتھ بھارتی ، امانت اللہ خاں، طاہر حسین اور دیگر قائدین جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اور ان میں بعض ابھی بھی جیل میں ہیں ۔ ایک طرف بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت مقدمات کے ذریعہ عاپ قائدین کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف لیفٹننٹ جنرل کے ذریعہ حکومت کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ دہلی میں وزارت داخلہ اور بعض دیگر اہم امور مرکز کے تحت ہیں جس کی آڑ میں عاپ حکومت کو بے اختیار اور کمزور کرنے کی سازش کی گئی۔ اروند کجریوال اور دیگر قائدین پر مقدمات نے عوام کے دلوں میں ہمدردی کی لہر پیدا کردی ہے ۔ عام آدمی کی بنیادی ضروریات تعلیم ، صحت ، بر قی ، پانی اور روز گار جیسے شعبہ جات میں عاپ حکومت کی کارکرد گی غیر معمولی رہی۔ مفت تعلیم اور مفت علاج کے اقدامات نے غریب اور متوسط طبقات کے دلوں میں جگہ بنالی ہے۔ سرکاری اسکولوں کو کارپوریٹ اسکولوں اور سرکاری دواخانوں کو سوپر اسپیشالیٹی ہاسپٹلس میں تبدیل کرنے کی مساعی قابل قدر رہی اور بی جے پی کو یہ برداشت نہیں ہوا، لہذا انتقامی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ۔ دہلی کی موجودہ صورتحال میں انتخابی مقابلہ بظاہر سہ رخی یعنی عاپ ، بی جے پی اور کانگریس کے درمیان دکھائی دے رہا ہے لیکن حقیقت میں مقابلہ دو رخی ہے۔ عاپ اور بی جے پی میں راست ٹکراؤ ہے جبکہ کانگریس اپنے وجود کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ انڈیا الائنس کا حصہ ہونے کے باوجود اروند کجریوال نے تنہا مقابلہ کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ کانگریس کی طاقت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ نشستوں پر مفاہمت کے ذریعہ بعد میں افسوس کرنے کے بجائے کجر یوال نے تنہا مقابلہ کا فیصلہ کرتے ہوئے بیباکی کا ثبوت دیا ہے۔ جس طرح مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے انڈیا الائنس کی حلیف کے باوجود اپنی علحدہ شناخت بنائی ہے ، ٹھیک اسی طرح اروند کجریوال دہلی میں کانگریس کی طاقت کو خوب جانتے ہیں۔ کانگریس سے اتحاد کے بغیر وہ بی جے پی کو شکست دینے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ دہلی کے رائے دہندے دیگر ریاستوں کے مقابلہ زیادہ باشعور ہیں اور وہ اپنے اچھے برے کی بہتر طور پر تمیز کرسکتے ہیں۔ عاپ حکومت کی 10 سالہ کارکردگی ہر شعبہ حیات کیلئے اطمینان بخش رہی، لہذا عاپ کی مخالفت کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ بی جے پی کو جب تمام سیاسی حربے بے اثر دکھائی دینے لگے تو اس نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو اختیار کرلیا۔ عام آدمی پا رٹی اور کانگریس میں اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے سیکولر ووٹ تقسیم کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی سیکولر ووٹ کی تقسیم کا نتیجہ ثابت ہوئی تھی۔ حال ہی میں مہاراشٹرا چناؤ میں سیکولر ووٹ کی تقسیم کا بی جے پی کو راست فائدہ ہوا۔ دہلی کی صورتحال دیگر ریاستوں سے مختلف ہے۔ کانگریس پارٹی دہلی میں مضبوط مقابلہ کے موقف میں نہیں ہے کیونکہ ریاست کی سطح پر عوامی مقبول قیادت نہیں ہے۔ شیلا ڈکشٹ کا متبادل آج تک کانگریس تیار نہیں کرسکی، لہذا دہلی میں سیکولر ووٹ کی تقسیم کی مساعی کامیاب نہیں ہوگی۔ بہوجن سماج پارٹی اور بعض دیگر علاقائی پارٹیوں کو بھی دہلی کے انتخابی میدان میں اتارا جارہا ہے لیکن وہ چناؤ پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔ لوک سبھا چناؤ میں جس طرح کانگریس کا مظاہرہ بہتر ہوا ہے، شائد دہلی چناؤ میں بھی کانگریس کچھ نشستیں حاصل کرلے۔
دہلی اسمبلی چناؤ میں 3M کا رول فیصلہ کن رہے گا۔ مختلف میڈیا گھرانوں کے سروے کے مطابق 3M یعنی مہیلا ، مسلم اور مڈل کلاس بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں اور یہ محض اتفاق ہے کہ 3M کا جھکاؤ عام آدمی پارٹی کی طرف ہے۔ 2015 اور پھر 2020 دونوں اسمبلی انتخابات میں خاتون رائے دہندوں نے علی الترتیب 53 اور 60 فیصد عام آدمی پارٹی کی تائید کی تھی۔ بی جے پی کو 35 فیصد جبکہ کانگریس کو محض 7 فیصد خواتین کی تائید حاصل ہوئی۔ الیکشن سے قبل عام آدمی پارٹی نے آتشی کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کرتے ہوئے خواتین ووٹ بینک پر عملاً قبضہ کرلیا ہے۔ خواتین کیلئے ماہانہ 2100 روپئے کی امدادی اسکیم کا اعلان کیا گیا جہاں تک مسلم رائے دہندوں کا سوال ہے 2011 مردم شماری کے مطابق مسلم آبادی 13 فیصد ہے۔ 2008 میں مسلمانوں نے کانگریس کی تائید کی تھی جبکہ 2013 سے مسلمانوں کا رجحان عام آدمی پارٹی کی طرف دیکھا جارہا ہے ۔ دہلی کے تقریباً 15 اسمبلی حلقہ جات میں اقلیتی رائے دہندے فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں اور گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں مسلم قابل لحاظ آبادی والے حلقوں میں عام آدمی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ دہلی میں مڈل کلاس طبقہ تقریباً 45 فیصد ہے جو روایتی طور پر عام آدمی پارٹی کے ووٹ بینک سمجھے جاتے ہیں۔ اروند کجریوال اور ان کی ٹیم نے گزشتہ پانچ برسوں میں بی جے پی کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لہذا مبصرین کے مطابق دہلی انتخابات میں عاپ کی ہیٹ ٹرک یقینی ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی کی چادر اجمیر شریف کی درگاہ پہنچی، اسی وقت علیگڑھ کی تاریخی جامع مسجد پر مندر ہونے کا دعویٰ پیش کیا گیا ہے ۔ نریندر مودی نے عرس شریف کے موقع پر وزارت عظمیٰ کی رسمی روایت کو پورا کرتے ہوئے خصوصی چادر روانہ کی لیکن انہوں نے عرس کے موقع پر کوئی پیام جاری نہیں کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم مساجد کے نیچے مندروں کی تلاش کرنے والوں کی مذمت کرتے۔ علیگڑھ کی تاریخی جامع مسجد کے مندر ہونے کی دعویداری کو مقامی عدالت نے قبول کرتے ہوئے 15 فروری کو سماعت مقرر کی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تحت کی عدالتوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مساجد کے نیچے مندروں کی تلاش سے متعلق درخواستوں کو قبول نہ کریں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کو تحت کی عدالتیں نظر انداز کر رہی ہے اور وقفہ وقفہ سے مختلف مساجد کے بارے میں درخواستوں کو سماعت کیلئے قبول کیا جارہا ہے ۔ سنبھل ابھی سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ علیگڑھ کی تاریخی جامع مسجد کو نشانہ بناتے ہوئے جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں نے یہ پیام دیا ہے کہ مندروں کی تلاش کا کام رکنے والا نہیں۔ سنبھل میں جو کچھ ہوا ، اس پر اترپردیش کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کی خاموشی دراصل حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل جامع مسجد کے معاملہ میں م قامی عدالت کی کارروائی پر روک لگاتے ہوئے عبوری احکامات جاری کئے ہیں۔ ہائی کورٹ میں 25 فروری کو سماعت ہوگی اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہائی کورٹ مسجد پر مندر ہونے کی دعویداری کو مسترد کردے گا۔ شکیل اعظمی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کیلئے
کچھ ہنر چاہئے بازار میں رہنے کیلئے