پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
انگریزی کے اکثر لغت یا ڈکشنریوں کے مطابق لفظ TARIFF ایک اسم ہے اور اس کے معنیٰ کسی ملک میں درآمد کی جانے والی اشیاء ( مصنوعات) پر ایک ٹیکس عائد کرنا ہے، بعض موقع پر برآمدات پر بھی ایک ٹیکس عائدکیا جاتا ہے اور ہاں لفظ TARIFF کا بطور فعل Verb بھی استعمال ہوتا ہے لیکن شاذ و نادر ایسا ہوتا ہے ، تاہم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے باعث TARIFF کا فعل یا Verb کے طور پر اب اس کا استعمال عام ہوگیا ہے ۔ ٹرمپ نے دنیا کے بیشتر ممالک پر محاصل TARIFF عائد کیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دو جزیروں ہرڈ اور میکڈونالڈ کو بھی نہیں بخشا ۔ جہاں جانداروں میں صرف ینگوئن ہی رہتے بستے ہیں، وہاں انسانوں کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ینگوئن ریاستہائے متحدہ امریکہ کو کچھ بھی برآمد نہیں کرتے یعنی وہ درآمد کرتے ہیں اور نہ ہی برآمد کرتے ہیں ، اس کے باوجود ٹرمپ نے مذکورہ دونوں جزیروں پر بھی محاصل عائد کئے ہیں(جس پر ساری دنیا حیرت میں مبتلا ہوگئی)
جہاں تک مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کا سوال ہے ، ان کا ماننا ہے کہ امریکہ میں درآمد کئے جانے والی اشیاء پر سخت TARIFF عائد کئے جانے سے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے میں مدد ملے گی ۔ اس ضمن میں ٹرمپ نے میک امریکن گریٹ اگین (MAGA) کا نعرہ بلند کیا ہے ۔ 2 اپریل 2025 کو ڈونالڈ ٹرمپ نے TARIFF کے ایک جدول کی اجرائی عمل میں لائی جیسے ہی اس جدول کی رونمائی کی گئی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ Table یا جدول ایک سادہ سے فارمولہ کی بنیاد پر حساب کتاب کرتے ہوئے تیار کیا گیا ۔ یہ فارمولہ اس لئے اپنایا گیا تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ ہم نے سیدھے سادہ اور انتہائی سہل انداز میں مختلف ملکوں پر عائد کئے گئے جوابی محاصل پیش کئے ہیں۔ جس ملک کو ٹرمپ نے جوابی TARIFF کا نشانہ بنایا اس کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تجارتی خسارہ کے ایک نصف حصہ کو نشانہ بنائے گئے ملک کی جانب سے امریکہ کو برآمد کردہ اشیاء کی جملہ قدر سے تقسیم کیا گیا ۔ 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات کو ایک سوال تک محدود کردیا گیا اور وہ سوال یہ تھا کہ امریکی سیاست / انتخابات میں اہم موڑ ثابت ہونے والی سات ریاستوں یعنی Swing States میں سب سے زیادہ کون کامیاب ہوگی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی نے ان تمام سات ریاستوں ایریزونا ، جارجیا ، مشی گن ، نپوڈا ، شمالی کیرولینا ، پنسلوانیہ اور وسکانسن میں کامیابی حاصل کی اور ان ریاستوں سے اس (ریپبلیکن ) نے 93 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے ۔ مسٹر ٹرمپ کا حلقہ ان سات ریاستوں میں ہے، وہ مشترکہ خصوصیات شیر کرتے ہیں جیسے صنعتوں سے محر ومی ، بیروزگار کی اعلیٰ شرح اور سیاسی بیان بازی وغیرہ وغیرہ یہ ایسی ریاستیں ہیں جنہیں مہنگائی ، امیگریشن اور سفید فام مرد صنعتی مزدوروں کی ترجیحات سے مسائل کا ابھی سامنا ہے ۔ چونکہ ان تمام سات ریاستوں میں مسٹر ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہوئی اس لئے ان کا یہ ایقان ہے کہ مذکورہ سات ریاستوں کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ ان ریاستوں کے ہی مسائل نہیں بلکہ امریکہ کے مسائل ہیں اور وہ (مسٹر ٹرمپ) ان تمام مسائل کے حل کیلئے پابند عہد ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے ختم ہوئے 80 برسوں میں دنیا کو افرادی قوت ، اشیاء اور خدمات کے آزادانہ نقل و حرکت سے زبردست فائدہ ہوا اور دنیا کے جس ملک کا سب سے زیادہ فائد ہوا وہ کوئی اور ملک نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو امریکہ دنیا کا دولتمند ترین ، طاقتور و با اثر اور اختراعی صلاحیتوں سے لیس ملک ہے ۔ امریکہ میں دنیا کی بہترین کمپنیاں ، بہترین جامعات ، بہترین لیباریٹریز اور بہترین اتھلیٹس پائے جاتے ہیں جبکہ امریکی ڈالر کی دنیا بھر میں غیر معمولی قدر و منزلت ہے ۔ دنیا بھر میں وہ قابل قبول ہے اور امریکی ڈالر دنیا کی ریزرو کرنسی ہے ۔ اب اگر ہم امریکی گرین کارڈ اور امریکی پاسپورٹ پر غور کرتے ہیں تو بلا جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کے سب سے زیادہ با وقار دستاویزات ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں امریکی گرین کارڈ اور امریکی پاسپورٹ کو بڑے ہی قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ اکثر ممالک بشمول چین اور ہندوستان نے اپنے فارن ایکسچینج ہولڈنگ کا ایک قابل لحاظ حصہ امریکہ میں بطور سرمایہ مشغول کر رکھا ہے یعنی وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔ دوسری طرف امریکی بانڈس نے امریکہ کو دنیا کا اپنا واحد ملک بنا رکھا ہے جو مالی خسارہ کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی قسم کی تشویش میں مبتلا ہوتا ہے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ صرف وہ لوگ جن کا بظاہر یہ ماننا ہے کہ ان تمام امریکی خوبیوں نے ان کی زندگیوں میں کسی قسم کی مثبت تبدیلی نہیں لائی ، ان کی زندگیوں میں خوشحالی نہیں لائی ، فوائد نہیں لائے ، وہ سطور بالا میں ذکر کی گئی سات ریاستوں کے عوام میں ٹرمپ حقائق سے زیادہ ان کے وفادار ہیں۔
مسٹر ٹرمپ نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں ، اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی پالیسیوں سے جہاں امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم دوسرے ملکوں کے باشندوں کا نقصان ہوگا، وہیں نئی ایمگریشن پالیسی امریکیوں کو برے پیمانہ پر روزگار فراہم کرے گی ۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا جبکہ زائد از 180 ملکوں پر جوابی محاصل عائد کرنے سے امریکہ کو جو مالی خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا تھا، نہ صرف وہ ختم ہوگا بلکہ امریکی قرض میں غیر معمولی کمی بھی آئے گی۔ ایک بات ضرور ہے کہ امریکہ میں جو ٹیلنٹ آرہا ہے با الفاظ دیگر دوسرے ملکوں بالخصوص ہندوستان سے جو باصلاحیت نوجوان آرہے ہیں اس کا سلسلہ اگر ختم نہیں ہوگا تو سست روی کا شکار ضرور ہوگا ، مختلف مصنوعات میں تجارت شدید متاثر ہوگی اور سپلائی چین میں زبردست خلل پڑے گا ۔ اسی طرح خدمات میں تجارت بھی شدید متاثر ہوئے بناء نہیں رہے گی ۔ اس پر کم از کم عارضی طور پر اثر تو ضرور مرتب ہوگا ۔ جہاں تک Capital Flow کا سوال ہے، اسے ایڈجسٹ ہونے میں وقت درکار ہوگا کیونکہ نئے محاصل اور جوابی محاصل کے مطابق سرمایہ کے بہاؤ کو ایڈجسٹ ہونے میں وقت تو لگے گا ہی کچھ خدمات میں بھی خلل پڑے گا۔
اگر ہم ٹرمپ کی جانب سے مختلف ملکوں پر جن میں حلیف اور حریف ممالک شامل ہیں TARIFF عائد کئے جانے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں نے ٹرمپ کے یکطرفہ اور عجیب و غریب فیصلہ پر قابل تعریف و قابل ستائش موقف اختیار کیا۔ یہ بھی ظاہر ہیکہ ٹرمپ کئی ملکوں کو بھی کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ٹرمپ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اور امریکی عوام امریکہ میں درآمد کی جانے والی اشیاء پر بہت زیادہ محاصل کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو امریکہ میں رسد متاثر ہوگی، مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور لوگ ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے ۔ امریکی برہم ہوجائیں گے ۔ یہاں تک کہ MAGA امریکی مہنگائی کے اثرات محسوس کریں گے ۔ ویسے بھی ٹرمپ کی عجیب و غریب فیصلوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں امریکی ملک کے بڑ ے شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔ اگر مہنگائی اور بیروزگاری بڑھے گی تو مزید لاکھوں امریکی سڑ کوں پر آجائیں گے اور مسٹر ٹرمپ اپنے فیصلوں کو واپس لیں گے یا انہیں موخر کردیں گے ، جیسا کہ انہوں نے 9 اپریل کو اس وقت کیا جب سوائے چین کے تمام ملکوں پر عائد TARIFF کو موخر کردیا ۔ اس کہانی میں مزید اتار چڑھاؤ ہوگا ۔ مزید موڑ ہوں گے اور ٹرمپ دو چیزیں دیکھیں گے ، ایک تو یہ کہ ماگا امریکی کس طرح کا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں اور یو ایس بانڈس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے اس کے کیا نتائج منظر عام پر آرہے ہیں اور جب دونوں ان کے توقعات کے برعکس ثابت ہوں گے تب وہ بڑی بے شرمی سے اپنی سیاست کو پلٹ دیں گے ۔ اگر ہم ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلوں اور مختلف ممالک کے ردعمل کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کینیڈا اور یوروپ ٹرمپ اور ان کے نامعقول فیصلوں کے سامنے مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ چین نے تو ٹرمپ کے TARIFF کے خلاف آخر تک ڈٹے رہنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ اس نے امریکہ کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا عزم کیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین امریکہ پر بھی جوابی محاصل عائد کرتا جارہا ہے ۔ اگر امریکہ چین پر محاصل کی جنگ مسلط کرتا ہے تو چین پیچھے نہیں ہٹے گا ۔ ہاں اس تمام کہانی میں ایک بات اہم ہے کہ ہندوستان نے اب تک ڈونالڈ ٹرمپ کے جوابی محاصل پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی ردعمل ظاہر کیا ہے بلکہ امریکہ سے تجارتی معاہدہ کرنے کو ترجیح دی ہے لیکن ہندوستان بزدلی کا تاثر نہیں دے سکتا اور نہ ہی یہ دکھاسکتا ہے کہ عالمی معیشت کے ساتھ جو کچھ ہوسکتا ہے، اس بارے میں وہ کسی قسم کی تشویش نہیں رکھتا ۔ موجودہ حالات میں ہندوستان کو اپنا ایک موقف اختیار کرنا چاہئے ۔ مس ارسولاوانڈرلے این، مسٹر مارک کارنی ، مسٹر کیراٹارمر اور چند دوسرے رہنما ہیں ، یہ ایسی مثالیں ہیں جنہیں ہندوستان کو فالو کرنا چاہئے ۔ مسٹر ٹرمپ نے TARIFF عائد کئے جانے کو جس طرح موخر کیا ہے اس سے عالمی سطح پر یہ امید پیدا ہوئی تو ان میں اقتصادی سمجھ بوجھ ضروری پیدا ہوگی اور اگر مسٹر ٹرمپ محاصل کو موخر کرنے کے معاملہ کو منسوخ کرنے دوبارہ محاصل عائد کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ عالمی معیشت کو بھی تباہ کردیں گے کیونکہ اکثر ماہرین اقتصادیات نے معاشی انحطاط کی پیش قیاسی کی ہے ۔ اس کا بڑا اثر ہندوستان پر بھی مرتب ہوگا ۔ معاشی انحطاط کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو مہنگائی ، درآمدات میں گراوٹ اور کم این پی آئی اور این ڈی آئی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ہندوستان کو اپنے اتحادیوں کا انتحاب کر کے ان کے ساتھ تجارت کو توسیع دے کر مسٹر ٹرمپ کے من مانی فیصلوں کے برعکس کام کرنا ہوگا ۔ اگر دیکھا جائے تو اقتصادی قوانین اور نظریات ٹرمپ کو شکست دیںگے ۔ فتح کے موقع پر ہندوستان کو شکست خوردہ کے ساتھ ٹھہرا نہیں دیکھا جاسکتا۔