کے سی آر کو محمد علی شبیر پر غصہ کیوں آیا ؟ اہم راز کا انکشاف

   

بی آر ایس میں شمولیت اور اہم عہدوں کی پیشکش کانگریس قائد نے ٹھکرادی، سبق سکھانے کیلئے کاماریڈی سے مقابلہ کا اعلان

حیدرآباد۔/20ستمبر( سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے گجویل کے علاوہ کاماریڈی اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کا فیصلہ اچانک کیوں کیا ؟ آخر اس حلقہ سے کے سی آر کو دلچسپی اور ہمدردی کیوں پیدا ہوگئی؟۔ ان سوالات کا جواب تلاش کریں تو ایک انتہائی راز کا انکشاف ہوا ہے۔ کے سی آر نے گجویل کے علاوہ کاماریڈی سے مقابلہ کا فیصلہ سیاسی حکمت عملی کے تحت نہیں بلکہ کانگریس کے سینئر لیڈر محمد علی شبیر سے ناراضگی کے سبب کیا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے قائد سے ناراضگی ناقابل فہم ہے لیکن جس راز کا ہم انکشاف کرنے جارہے ہیں وہ یقیناً ہر کسی کیلئے چونکا دینے والا ثابت ہوگا اور کے سی آر کے کاماریڈی سے مقابلہ کے پس پردہ وجوہات کا عوام کو علم ہوگا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق انتخابی سرگرمیوں کے آغاز کے موقع پر کے سی آر نے محمد علی شبیر کو بی آر ایس میں شمولیت کی دعوت دی اور انہیں بعض اہم عہدوں کی پیشکش بھی کی گئی۔ چیف منسٹر کے پیش نظر تلنگانہ کے اقلیتی رائے دہندوں کے ووٹ تھے جنہیں وہ کسی بھی صورت میں گنوانا نہیں چاہتے۔ بی آر ایس میں عوام میں مقبول مسلم قیادت کی کمی کو پُر کرنے اور مسلمانوں کو کانگریس کی طرف راغب ہونے سے روکنے کیلئے کے سی آر نے محمد علی شبیر کو اہم عہدوں کی پیشکش کے ساتھ بی آر ایس میں شمولیت کی دعوت دی۔ حکومت میں نمبر 2 پوزیشن رکھنے والے ریاستی وزیر کے ذریعہ محمد علی شبیر کو یہ پیشکش کی گئی اور کئی دن تک انہیں راضی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن محمد علی شبیر نے پہلے ہی مرحلہ میں پیشکش کو ٹھکرادیا اور واضح کردیا کہ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس سے ہوا ہے اور وہ آخری سانس تک کانگریس میں برقرار رہیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ بی آر ایس کی خفیہ مفاہمت سے متعلق عوام میں پائی جانے والی بے چینی بالخصوص مسلمانوں میں ناراضگی کو دیکھتے ہوئے کے سی آر نے محمد علی شبیر کو کانگریس سے انحراف کے ذریعہ مسلمانوں کو کانگریس کی طرف جانے سے روکنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ محمد علی شبیر چونکہ موجودہ 4 فیصد مسلم تحفظات کی فراہمی میں اہم رول ادا کرچکے ہیں لہذا چیف منسٹر چاہتے تھے کہ 12 فیصد مسلم تحفظات کی عدم تکمیل کی پابجائی کیلئے محمد علی شبیر کو استعمال کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ وزیر نے چیف منسٹر کی جانب سے پیشکش کی کہ فوری طور پر کابینی رتبہ کے ساتھ تلنگانہ ڈیولپمنٹ بورڈ کا صدرنشین اور قانون ساز کونسل کی رکنیت دی جائے گی۔ پارٹی کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد راجیہ سبھا کی رکنیت کا پیشکش بھی کیا گیا۔ محمد علی شبیر نے جب پیشکش کو ٹھکرادیا اس کے بعد چیف منسٹر نے کاماریڈی سے مقابلہ کرتے ہوئے انہیں ہرانے کی ٹھان لی ہے۔ دو حلقہ جات سے کامیابی کے بعد چیف منسٹر گجویل کو برقرار رکھیں گے اور کاماریڈی سے استعفی دیں گے کیونکہ گجویل کے تحت ان کا فارم ہاوز بھی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں حلقہ جات سے کامیابی کی صورت میں کاماریڈی سے استعفی دینا ہے لیکن پارٹی میں عدم شمولیت پر سبق سکھانے کیلئے کے سی آر نے دونوں حلقہ جات سے مقابلہ کا اعلان کردیا۔ چیف منسٹر چاہتے تھے کہ محمد علی شبیر کی شمولیت کی صورت میں انہیں ریاست بھر میں اقلیتوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے متحرک کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ بی آر ایس نے اسمبلی حلقہ جات کے بارے میں جو سروے کرایا ہے اس میں کاماریڈی سے محمد علی شبیر کی کامیابی کو یقینی بتایا گیا۔ گمپا گوردھن کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کیلئے محمد علی شبیر کو بی آر ایس میں شمولیت کی پیشکش کی گئی۔ موجودہ صورتحال میں کاماریڈی اسمبلی حلقہ کے رائے دہندے چیف منسٹر کے فیصلہ سے خوش نہیں ہیں۔ نہ صرف کاماریڈی بلکہ ریاست کے دیگر علاقوں میں مسلم اقلیت میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ چیف منسٹر کانگریس کے واحد مسلم لیڈر کو بھی منتخب ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اب جبکہ الیکشن شیڈول کی اجرائی کے بعد بی آر ایس کے امیدواروں کی فہرست میں تبدیلیوں کا امکان ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کے سی آر دو حلقہ جات سے مقابلہ کے فیصلہ پر قائم رہتے ہیں یا پھر اپنے روایتی حلقہ گجویل تک محدود ہوجائیں گے۔