حیدرآباد۔ حیدرآباد میں موجود گنبدان قطب شاہی کے انیسویں صدی کے اوائل کی پینٹنگس اور فوٹو گرافس میں یہ یادگار عمارتیں گارڈنس سے گھری شاندار حالت میں دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن بعد میں 20 ویں اور 21 ویں صدی میں اس ہیرٹیج کامپلکس کو آنے والوں کو یہاں کی حالت مختلف دکھائی دیتی رہی ہے۔ لیکن اب چیزوں میں تبدیلی ہورہی ہے کیونکہ ریاستی حکومت اور آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر کی جانب سے اس سبزدہ زار کے منظر کو بہتر بنانے اور اس گورستان شاہی کے تاریخی انوکھے پن کو پھر سے بحال کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کی سی ای او رتیش نندا نے بتایا کہ ’’ ہمارے ریسرچ کے دوران بانی سلطان قلی کو دفنائے گئے گارڈن کے احاطہ کا پتہ چلا ہے۔ یہ ایک اہم دریافت ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ اس میں مقبروں کو دیوار بند باغ کے احاطہ میں رکھنے کی فارسی روایت کو برقرار رکھا گیا تھا۔ ابراہیم قطب شاہ کے دور سے جس نے اس کا مقبرہ ایک اونچی سطح پر خود تعمیر کروایا تھا، برسوں میں لیولس میں تبدیلی ہوئی ہے۔‘‘ ٹومبس کامپلکس کے بیرونی حصہ میں قلی قطب شاہ ڈیولپمنٹ اتھاریٹی نے ایک دکن پارک بنایا تھا۔ اندرونی حصہ میں کشتی رانی کی سہولت، ایک ٹوائے ٹرین، ایک ایمفی تھیٹر اور الگ الگ پارکس بنائے گئے جس سے اس ہیرٹیج کامپلکس کی انفرادیت متاثرہوئی۔ بوٹنگ کیلئے حوض سے کھدائی کی گئی مٹی کا ایک طرف ڈھیر ہوگیا۔ گنبدان قلی قطب شاہی کامپلکس میں اب داخلہ جو دکن پارک کیلئے ہوتا تھا اس کے ذریعہ ہوگا۔ تاریخ دان سجاد شاہد جنہوں نے فارسی اور اردو دستاویزات کے ریسرچ کے ساتھ اس کنزرویشن ٹیم کی مدد کی‘ کہا کہ ’’ یہ علاقہ بڑا ہے اور میں نے اس گارڈن میں صنوبر، کیوڑا، گل عباس، گل داؤدی اور دوسرے پودوں کی شجرکاری کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا تذکرہ تاریخی مواود اور اس دور کی شاعری میں بھی ہے۔‘‘ کمانڈر اور حاکمس کے مقبروں کو جو ایک پلیٹ فارم میں پلاسٹر کے گئے تھے اب الگ کیا گیا ہے، یہاں ایک پتھر کا چبوترہ بھی بنایا جارہا ہے۔