ہجومی تشدد کے واقعہ کو ہجومی تشدد لکھنے پر ایف آئی آر

   

روش کمار

ہجومی تشدد کے واقعات کی رپورٹ کیسے کی جائے آج یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے کیوں کہ ہجومی تشدد ہے یا نہیں اسے لے کر پولیس کے الگ بیان ہوتے ہیں، مہلوک کے غمزدہ ارکان خاندان کے بیانات الگ ہوتے ہیں جبکہ میڈیا اور بھیڑ کے بیان بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ آپ صرف پولیس کے بیان پر ہی بھروسہ نہیں کرسکتے۔ حال ہی میں چھتیس گڑھ کے رائے پور میں ہجومی تشدد کا ایک واقعہ پیش آیا تو بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے لوگ پولیس عہدہ داروں کے خلاف کارروائی کی مانگ کرنے لگے جنھوں نے ایک معاملہ میں ہجومی تشدد کے الزامات عائد کئے۔ دوسری طرف اترپردیش کے ضلع شاملی میں پولیس نے کچھ صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے کیوں کہ پولیس مانتی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی رپورٹ میں ماب لنچنگ لکھ کر کشیدگی بڑھانے کا کام کیا ہے۔ پولیس سبھی ایسے مذہبی تنظیموں کے خلاف FIR درج نہیں کرپاتی ہے لیکن صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کردی گئی۔ ہجومی تشدد کو لے کر سپریم کورٹ نے پولیس کے لئے رہنمایانہ خطوط مقرر کئے ہیں اور مرکزی و ریاستی حکومتوں سے کہاکہ ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں اس بات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جائے کہ ہجومی تشدد یا فرقہ وارانہ تشدد میں شامل ہونے پر سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ لیکن کیا ایسا لگاتار کیا جاتا ہے؟ اب سپریم کورٹ سے پوچھا جائے کہ صحافی کسی واقعہ کو ہجومی تشدد کب کہے، اس کے لئے کس کے بیان پر بھروسہ کریں؟ ہم ان سوالات کے ساتھ ساتھ حالیہ عرصہ میں پیش آئے کچھ واقعات کے بارے میں بھی بات کریں گے جنھیں ہجومی تشدد سے جوڑا جارہا ہے مگر شروعات ہم 9 جولائی کے ٹیلیگراف اور دی ہندو میں شائع ایک رپورٹ سے کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ہجومی تشدد کے پیچھے کارفرما کئی وجوہات میں سے ایک کی سیاست کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ ٹیلیگراف میں سبھاش چوہدری اور دی ہندو میں وجیتا سنگھ کی رپورٹ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوہ موئترا کے ایک الزام کو لے کر ہے۔ مہوہ موئترا نے اپنے ٹوئٹر پر الزام لگایا ہے کہ بی جے پی کے ایم پی اور مرکزی وزیر جہاز رانی شانتانو ٹھاکر نے اپنے لیٹر ہیڈ پر ایک فارم پرنٹ کیا ہے اور بی ایس ایف سے درخواست کی ہے کہ ایک فرد کو بنگلہ دیش 3 کیلو گرام بیف لے جانے کی اجازت دی جائے اسمگلنگ کا الزام عائد کیا۔ شانتانو ٹھاکر نے اسے قبول کیا لیکن کہاکہ انھوں نے کسی اسمگلر کو پاس دینے کیلئے نہیں کہا ہے۔ بھارت ۔ بنگلہ دیش سرحد پر بی ایس ایف اِس پار سے اُس پار جانے والوں کے سامان کی تلاشی لیتی ہے۔ ان ہی چیزوں کو لے جانے دیا جاتا ہے جس کی اجازت گرام پنچایت پہلے سے دیتی ہے۔ اب ان گرام پنچایتوں پر ترنمول کانگریس کا کنٹرول ہے تو سیاست کے حساب سے اجازت دی جاتی ہے۔ یہ سب شانتانو کمار کا بیان ہے ان کا بیان انڈین اکسپریس میں شائع ہوا ہے کہ بی ایس ایف کے ہاتھوں لوگوں کو کس طرح کی پریشانی ہورہی ہے۔ مکتوب لکھا بی ایس ایف کی طرح سے چھپا ہے کہ ہم لوگوں کو مویشی لے جانے کی اجازت نہیں دیتے لیکن بیف لے جانے سے نہیں روکتے۔ ہندو میں بھی لکھا ہے کہ ترنمول کے کونسلرس، بیف لے جانے کے لئے ہر دن ایسے 80 پاسیس جاری کرتے ہیں۔ بیف لے جانے کیلئے بی جے پی کے ارکان پارلیمان لیٹر لکھ دیتے ہیں۔ ترنمول کانگریس کے کونسلرس بھی کتنی عام بات ہے۔ الیکٹورل بانڈس کا جب پردہ فاش ہوا تب یہ جانکاری نکل کر آئی کہ بی جے پی نے بیف اکسپورٹ کرنے والی کمپنی سے دو کروڑ کا چندہ لیا۔ ہم نے ان مثالوں کا حوالہ اس لئے دیا کیوں کہ اس پگڈنڈی کی تلاش میں جس کے سہارے ہجومی تشدد کے بڑھتے واقعات کو نئے سرے سے رپورٹ کرسکیں۔ آپ کو سمجھا سکیں کہ مغربی بنگال میں کتنا نارمل ہے بی جے پی کے لیڈر کا بیف لے جانے کیلئے مکتوب لکھ دینا لیکن وہیں دوسری ریاستوں میں اسی بیف کو لے کر کچھ لوگ گاؤ رکھشک بن جاتے ہیں اور کسی کو بھی گھیر کر اس کا قتل کردیتے ہیں۔ پچھلے دس برسوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔ چار جون کے بعد ہورہی ماب لنچنگ کے واقعات ملک بھر میں رپورٹ ہورہے ہیں مگر ان میں سے کچھ کی بات کرنے سے پہلے ہم ایک پرانے واقعہ سے شروع کرنا چاہتے ہیں جو اس بحث کو ٹارچ کی روشنی دکھانے کا کام کرسکتی ہے۔ جون 2018 ء میں یوپی کے ہاپور میں گاؤکشی کی افواہ کے بعد بھیڑ نے 42 سال کے قاسم قریشی کا قتل کردیا۔ اس حملہ میں 62 سالہ سمیع الدین بُری طرح زخمی ہوئے مگر بچ گئے۔ یہ معاملہ ماب لنچنگ کا تھا مگر ایف آئی آر میں اسے موٹر سائیکل حادثہ بتادیا گیا۔ سمیع الدین سپریم کورٹ گئے، عدالت نے میرٹھ رینج کے آئی جی سے کہاکہ ہجومی تشدد کے واقعات کو لے کر جو رہنمایانہ خطوط طے کئے گئے اس کی بنیاد پر اس واقعہ کی جانچ کی جائے۔ اس سال مارچ میں مقامی عدالت نے قاسم قریشی کے قتل کے معاملہ میں دس لوگوں کو خاطی پایا اور عمر قید کی سزا سنائی۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شویتا ڈکشٹ نے اپنے ایک سو ستاون صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ جس طرح سے ایک بے قصور شخص قاسم قریشی کو مارا گیا وہ سارے سماج کیلئے ایک خطرہ ہے چیلنج بھی ہے۔ ہم نے یہ جانکاری دی وائر کے عمر راشد کی رپورٹ سے لی ہے اس کیس کو سپریم کورٹ کے وکیل ویریندر گروور نے لڑا۔ کئی رپورٹس میں ویریندر گروور کا نام بھی نہیں ہے۔ یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ ہاپور کورٹ نے پولیس کی تحقیقات پر کئی سنگین سوالات اُٹھاتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ کے رہنمایانہ خطوط پر عمل آوری نہیں کی گئی۔ ملزمین کی پہچان پریڈ نہیں کروائی گئی تب یہ پریڈ کروائی گئی جب سمیع الدین اس کے لئے سپریم کورٹ گئے اور حکم لے کر آئے۔ جج شویتا ڈکشٹ نے لکھا ہے کہ 16 جون 2018 ء کے واقعہ کے بعد ایف آئی آر لکھتے ہوئے پولیس نے سمیع الدین کے بھائی یٰسین پر دباؤ ڈالا، غلط جانکاریاں جوڑی گئیں کہ قریشی کی موت موٹر سائیکل حادثہ میں ہوگئی۔ کورٹ نے کہاکہ قاسم قریشی اور سمیع الدین پر گائے کا گوشت لے جانے کی افواہ کے بعد جان لیوا حملہ ہوا تھا نہ کہ موٹر سائیکل حادثہ ہوا تھا۔ پوری تحقیقات کے دوران موٹر سائیکل کے مالک کا موٹر سائیکل کے نمبر تک کا ذکر نہیں تھا تو یہ حال ہے پولیس کا اس کی تحقیقات کا۔ اگر سپریم کورٹ نے حکم نہیں دیا ہوتا تو کیا یہ سب سامنے آتا؟ اب آتے ہیں شاملی معاملہ میں جہاں پولیس کہتی ہے کہ ماب لنچنگ نہیں ہوئی ہے لیکن کچھ صحافیوں نے سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چیانل پر ایف آئی آر اور ارکان خاندان سے بات چیت کی بنیاد پر یہ بات کہی ہے۔ کیا ہجومی تشدد لکھنے پر صحافیوں کے خلاف FIR ہونی چاہئے یا جو بھی اس طرح کے واقعات میں شامل رہے ہیں انھیں سزا دلانے پر زور ہونا چاہئے یا صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر ہونی چاہئے۔ اس حساب سے تو ہاپور کے واقعہ سے پہلے جن صحافی نے ماب لنچنگ لکھا تھا انھیں پولیس کی بات مان کر موٹر سائیکل حادثہ ہی لکھنا چاہئے تھا۔ اسکرول نے شاملی کے تھانہ بھون کے اسٹیشن ہاؤز آفیسر سے بات کرکے لکھا ہے کہ یو ٹیوب چیانل ہندوستانی میڈیا کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے۔ پولیس کے مطابق چیانل نے بھیانک معلومات منظر عام پر لائی۔ یہ چیانل بہار کے صحافی صدف کامران کا ہے اس کے 3 لاکھ سبسکرائبرس ہیں۔ کامران کا کہنا ہے کہ انھوں نے خاندان والوں سے بات کی تھی جو ایف آئی آر میں لکھا ہے اس کی بنیاد پر رپورٹ بنائی۔ کامران کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں نے نیوز کی رپورٹنگ کی ہے تو ایف آئی آر کیسے ہوتی ہے یہ بات ٹھیک ہے۔ اس ایف آئی آر سے پہلے پولیس نے 6 جولائی کو ایک اور ایف آئی آر درج کی تھی جس میں صحافی ذاکر علی تیاگی وسیم اکرم تیاگی کے علاوہ تین دیگر لوگوں پر سوشل میڈیا پر خطرناک جانکاری پھیلانے کے الزام میں ایف آئی آر کی۔ ان تینوں کے نام ہیں آصف رانا، سیف الہ آبادی اور احمد رضا خان۔ ایف آئی آر میں فیروز کے خاندان والوں نے الزام عائد کیاکہ وہ کچھ کام سے آریہ نگر گیا تھا جہاں کچھ لوگوں نے اس کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا۔ شاملی کے ایس پی ابھیشک نے بھی اسکرول سے کہا ہے کہ ماب لنچنگ کا کیس نہیں ہے۔ فیروز کسی کے گھر میں گھسنے کی کوشش کررہا تھا، اس دوران پیٹا گیا، پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کشیدگی پھیلانے کے ارادے سے سوشل میڈیا پر ماب لنچنگ کا معاملہ بنایا گیا۔ پریس کلب آف انڈیا، انڈین ویمن پریس کو اور آن لائن نیوز میڈیا کے ادارہ Digipub نے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر کی مذمت کی ہے۔ Digipub نے کہا ہے کہ جن پت میں نیوز شائع کرنے پر صحافی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا فوجداری قانون کا بیجا استعمال ہے۔ پولیس کو ایف آئی آر واپس لینی چاہئے۔