پی چدمبرم، سابق مرکزی وزیر داخلہ
میں ان لوگوں کی تعریف و ستائش کرتا ہوں جو مجھے سونے پر اکساتے ہیں یا سونے پر مائل کرتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ میں ان لوگوں کے کچھ خیالات سے متفق نہ ہوں لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ مجھے روکنے ، سونے اور از سر نو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ہمیں سوچنے پر اکسانے والے جو لوگ ہیں ان لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے ۔ ہمیں اس بات کیلئے شکر گزار رہنا چاہئے کہ مسٹر این آر نارائنا مورتی (NRN) اور مسٹر ایس این سبرامنین (ایس این ایس) جیسی شخصیتیں ہمارے پاس ہیں ، یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا ہے ۔ ان کی اندرون و بیرون ملک ایک پہچان ہے ۔ اپنے طویل اور شاندار کامیاب کیریئر کے دوران ان شخصیتوں نے اپنے ذہن و قلب کی بات کہنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے معیار کو پروان چڑھایا ہے ۔ یہ وہ شخصیتیں ہیں جو بناء کسی جھجھک کے اپنے من کی بات کہہ دیتے ہیں ، ویسے بھی این آر نارائنا مورتی ( WRN) اور مسٹر ایس این سبرامنین (SNS) کو لوگ بہت سنتے ہیں ۔ ان کی باتوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ بعض لوگ ان دونوں کے خیالات یا نقاط نظر پر جارحانہ ردعمل کا بھی اظہار کردیتے ہیں ۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو مسٹر این آر این اور مٹسر ایس این ایس پیدائشی دولت مند نہیں، ان کو وراثت میں کوئی دولت ملی ہے نہ دونوں ملازم / صنعتی مزدور ہیں جو ماہانہ تنخواہ یا اجرت حاصل کرتے ہیں بلکہ مسٹر این آر نارائنا مورتی (NRN) اور مسٹر ایس این سبرامنین بہت ہی قابل پیشہ وارانہ ماہرین ہیں جو انجنیئروں سے پہلی نسل کے صنعت کار بنے ہیں۔ اس طرح ان کے اپنے اداروں کے منافع میں ان کا اپنا حصہ ہے۔ آپ کو ان دونوں کی سوچ و فکر اور خیالات کے بارے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ صنعتی اداروں کے مالکین اور دولتمند شخصیتوں کے وارثین اور ملازمین کے خیالات سے ان دونوں کے خیالات بالکل مختلف ہیں ۔ نتیجتاً کام (اوقات کار) اور زندگی کے توازن کے بارے میں ان کی سوچ و فکر اور نظریہ بھی بالکل مختلف ہے ۔ وارثین کو نیچے سے اوپر تک کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ انہیں ہر چیز دولت ، شہرت ، عزت سب وراثت میں ملتی ہے، یہ اور بات ہے کہ ا پنی صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ ا پنی دولت عزت اور شہرت میں اصافہ کرسکتے ہیں ۔ انہیں کافی مواقع میسر آتے ہیں، یہ بات ا ین آر این اور ایس این ایس دونوں اچھی طرح جانتے ہیں۔ کاروبار سے وابستہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جنہیں وراثت میں سب کچھ مل جاتا ہے ، وہ ایک دن بلند مقام تک رسائی حاصل کریں گے۔ اس معاملہ میں 1991 سے قبل کے ٹاپ 10 ہندوستانی صنعت و تجارتی گھرانوں اور آج کے صنعتی گھرانوں کی فہرستوں کا تقابل کیجئے ۔ آپ کو ا کثر ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے پہلی نسل کے صنعت کار ہوتے ہوئے دولت کمائی ہے ۔ جہاں تک ورکروں اور ملازمین کا سوال ہے ان میں سے ا کثر اجرت / تنخواہوں (اور اس پر متواتر نظرثانی) پر انحصار کرتے ہیں، یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میں مہارتوں کا نہ صرف فقدان ہوتا ہے بلکہ اپنی حالت خود سدھارنے کی خواہش بھی نہیں ہوتی ۔ میں نے خاص طور پر یہ محسوس کیا کہ زیادہ تر صنعتی و تجارتی گھرانوں کے وارث اور ملازمین ہیں جنہوں نے ہفتہ میں کام کے اوقات سے متعلق NRN اور SNS کے ریما رکس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان دونوں نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ہفتہ میں ملازمین کو کتنے گھنٹے کام کرنا چاہئے ۔
اصول نارمل نہیں ہیں: این آر این نے ہفتہ میں 70 گھنٹے کام کرنے کی وکالت کی ہے۔ ایس این ایس نے مبینہ طور پر کہا کہ ہفتہ میں 90 گھنٹے کام کرنا چاہئے ۔ میرا ایقان ہے کہ ان دونوں نے جو کچھ کہا ان کے اپنے نقطہ نظر سے اشتعال انگیز نہیں ہے ۔ این آر این کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی Work Productivity دنیا میں کم ورک پروڈکٹوٹی کے حامل ملکوں میں سے ایک ہے ۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس لئے میری یہ درخواست ہے کہ ہمارے نوجوان کو یہ کہنا چاہئے کہ۔ ’’یہ میرا ملک ہے‘‘ اور اس کی ترقی اس کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کیلئے میں ہفتہ میں 70 گھنٹے کام کرنے (خدمات انجام دینے) کا خواہاں ہو۔ جب ان کے مذکورہ ریمارکس پر ایک بحث چھڑگئی اور اس نے شدت اختیار کرلیا تب این آر این نے اپنا بیان واپس لینے سے انکار کردیا ۔ دوسری طرف ایس این ایس نے ایک ویڈیو میں (پتہ نہیں وہ کب اور کس تاریخ کا ہے) کچھ یوں کہا ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو اتوار کے دن بھی کام کروانے کے قابل نہیں ہوں۔ اگر دیانت داری کی بات کی جائے تو آپ تمام سے اتوار کے دن بھی کام لینے پر مجھے بے انتہا خوشی ہوگی کیونکہ میں خود اتوار کو بھی کام کرتا ہوں‘‘ ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ دن میں 8 گھنٹے کام (ڈیوٹی) سے متعلق قانون وہ بھی صنتی ورکرس کے لئے سب سے پہلے 1918 میں جرمنی میں منظور کیا گیا تب سے ہی 8 گھنٹے کام ، 8 گھنٹے تفریح اور 8 گھنٹے آرام کا اصول عالمی اصول یا قانون بن گیا ۔ اس طرح 8-8-8 کی عمدہ رنگ بن گئی ۔ اگرچہ میں یہ جانتا ہوں کہ کوئی بھی تفریح پر 8 گھنٹے صرف نہیں کرتا میں سمجھتا ہوں کہ Recreation میں کھانا پینا ، صاف صفائی ، کسرت ، کھیل کود ، فلم بینی ، اخبارات اور کتابوں کا مطالعہ ، شاپنگ (خریداری) بات چیت ، گپ شپ وغیرہ شامل ہیں۔ اگر آپ مذکورہ طریقہ سے غور کریں گے یا مذکورہ طریقہ پر دیکھیں گے تو ایسا لگتا ہے کہ 8 گھنٹے Recreation کیلئے کافی نہیں ہیں ۔
ایسے بے شمار صنعتی ورکرس ہیں جو ایک ہی طرز کا کام کرتے ہیں ۔ چند ایسے ہوتے ہیں جو خود میں نت نئی مہارت پیدا کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ پیچیدہ کام کرنے کے قابل بنتے ہیں اور پیچیدہ کام انجام بھی دیتے ہیں۔ جبDesk Jobs مروجہ ہوجاتے ہیں تب ملازمین 8-8-8 اصول کی نقل کرتے ہیں۔ زیادہ تر Desk ملازمین ایک ہی طرز کا کام کرتے ہیں اس لئے ورکروں / ملازمین کی بڑی اکثریت 8-8-8 کے اصول کو اپناتی ہے۔ ٹکنالوجی اور سسٹمس کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ Productive بناجاسکے۔ میرے خیال میں NRN اور SNS کے ریمارکس کا نشانہ ایسے ورکرس اور ملازمین نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کسان خاص طور پر سیلف ایملائیڈ کسان 8-8-8 اصول پر نہیں کرتے کیونکہ وہ ان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ پہلے 8 گھنٹوں کا کام 10 تا 12 گھنٹے کھینچنے کی توقع ہے ۔ یعنی وہ خود اپنے لئے کام کررہیں ہیں اس لئے 8 گھنٹے کی بجائے وہ دن میں 10 تا 12 گھنٹے کام کرسکتے ہیں ۔ اس طرح پیشہ وارانہ ماہرین جیسے ڈاکٹرس ، وکلاء ججس، آرکیٹکٹ ، سائنسداں، اداکار وغیرہ دن میں صرف 8 گھنٹے کام نہیں کرتے ۔ میں خود کئی ایسے پیشہ وارانہ ماہرین کو جانتا ہوں جو دن میں 12 گھنٹے خدمات انجام دیتے ہیں، وہ ہفتہ اور کئی موقعوں پر اتوار کو بھی کام کرتے ہیں ۔ کچھ کامیاب پیشہ وارانہ ماہرین کی طو یل گھنٹوں تک کام کرنے کے بارے میں شکایت کی جاتی کہ یہ رجحان انہوں نے اپنی مرضی و منشاء سے اپنایا ہے ۔ ایسے میں اس خود ساختہ اصول کا تمام انسانوں پر یکساں اطلاق ہونے والا رول نہیں ۔