ہم آئینہ ہیں دکھائیں گے داغ چہروں کے

   

دہلی فساد … ہندو راشٹر کا تجربہ
مسلم ارکان پارلیمنٹ … متاثرین سے ملنے کی فرصت نہیں

رشیدالدین
پارلیمنٹ میں دہلی فسادات پر مباحث کیلئے وقت نہیں ہے، تعجب ہے۔ دارالحکومت میں نفرت کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔ متاثرہ علاقوں کے در و دیوار کو زبان دے دی جائے تو وہ قتل و غارت گیری کی داستان بیان کریں گے۔ آج بھی کئی علاقوں سے خوف و دہشت کے عالم میں مسلم خاندانوں کے نقل مقام کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس نے اگرچہ تباہ شدہ ملبہ کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن تباہی کی نشانیاں آئندہ کئی برسوں تک تازہ رہیں گی۔ بر سر عام سڑکوں پر مظلوموں کا جس بیدردی سے خون بہایا گیا، اس کے تصور سے لوگ کانپ اٹھتے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ شہیدوں کے خون کی بو آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ دہلی جو کبھی مسلم حکمرانوں کا پائے تخت تھا اور جو شہر مسلم حکمرانوں کی تاریخی یادگاروں سے بھرا پڑا ہے ، اسی دہلی میں مسلمانوں کی خون کی ہولی کھیلی گئی۔ مکان ، دکان ، اسکولس حتیٰ کہ عبادتگاہوں کو شعلوں کی نذر کردیا گیا ۔ اجڑی ہوئی بستیاں آج بھی زبان حال سے تباہی اور بربادی کی داستانیں بیان کر رہی ہیں۔ تباہ شدہ عمارتوں کے در و دیوار ظلم و بربریت کے رونگھٹے کھڑے کرنے والے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ اگر کسی میں سماعت کی صلاحیت ہو تو آواز آئے گی اے مسلمانو کل تک تم یہاں حاکم تھے لیکن یہ کس نے محکوموں سے بدتر حالت کردی ہے۔ تمہارے آبا و اجداد نے جمنا کے کنارے وضو کیا تھا ۔ تمہارے اسلاف نے مولانا عبدالکلام آزاد کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے ہندوستان کو اپنے وطن کے طور پر اختیار کیا تھا۔ دہلی کی جامع مسجد ہو کہ قطب مینار یہ تمہاری عظمت کے نشان ہیں۔ گزشتہ 70 برسوں سے قومی پرچم کو اپنی پیشانی پر سجانے والا لال قلعہ تمہارے بزرگوں کی دین ہے۔ ملک کے چپہ چپہ میں تمہاری عظمتوں کی یادگاریں ہندوستان کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہی ہے۔ تم نے اپنے اجداد کی نشانیوں پر کبھی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہندوستان کے اثاثہ جات میں تبدیل کردیا۔ پھر بھی تمہارے ساتھ ناانصافی اور جانبداری کیوں ؟ دہلی کے رونق افروز بازار جو اب اجڑے چمن میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اپنے مالکین سے پوچھ رہے ہیں کہ اپنے ہی گھر میں اجنبیت کا احساس کیوں ؟ تمہیں آخر کس جرم کی سزا دی گئی؟ تباہ شدہ عمارتوں کے در و دیوار کی فریاد کے دوران ایک مسجد کے مینار سے یہ صدا آئی کہ دنیا کے کسی اور ملک میں کسی قوم کے اس قدر تاریخی اثاثے ہوتے تو سارا ملک اس قوم کو سر آنکھوں پر بٹھاتا لیکن یہاں احسان فراموشی کا جذبہ کیوں ہے۔ دنیا بھر سے لوگ ہندوستان کو اجنتا اور ایلورا نہیں بلکہ تاج محل کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ یو پی کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے تاج محل کو غلامی کی علامت سے تعبیر کیا تھا ۔ اتنا ہی نہیں یو پی کے محکمہ سیاحت کے کتابچہ سے تاج محل کو نکال دیا گیا ۔ جس طرح آسمان کی طرف تھوکنے سے اپنا ہی نقصان ہے ، ٹھیک اسی طرح تاج محل کے نام ہٹانے سے اس کی خوبصورتی اور مقبولیت میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا۔ تاج محل سے دشمنی کرنے والے ادتیہ ناتھ کو گزشتہ ہفتہ ٹرمپ کو تاج محل کے ساتھ تصویر کا فریم بطور تحفہ پیش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کا اظہار دہلی کی اجڑی ہوئی بستیاں کر رہی ہیں۔ دہلی کی ان بستیوں کو 2002 ء میں گجرات میں پیش آئے واقعات کی یاد آرہی ہے، جہاں دہلی کی طرح منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ گجرات کا تجربہ دہلی میں دہرایا گیا ۔ دنیا کا کوئی بھی حکمراں ہندوستان آئے تو اس کی مہمان نوازی حیدرآباد ہاؤز میں کی جاتی ہے۔ بی جے پی کو نظام حیدرآباد سے نفرت ہے لیکن ان کی یادگار عمارت کے سوا کوئی اور مقام ایسا نہیں جہاں باوقار انداز میں بیرونی مہمانوں کی ضیافت کی جاسکے۔ ایک ہزار برس تک ملک پر حکمرانی اور جہاں بانی کرنے والوں کے لئے دہلی تنگ کردی گئی لیکن ملک کی پارلیمنٹ کے پاس مباحث کیلئے وقت نہیں ہے ۔ گزشتہ پانچ دن سے تمام اپوزیشن جماعتیں دہلی فسادات پر مباحث کا مطالبہ کر رہی ہے۔ لیکن حکومت اس کے لئے تیار نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہولی کے بعد مباحث ہوں گے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پارلیمنٹ کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت خود مباحث کا آغاز کرتی تاکہ عوام میں اعتماد بحال کیا جاسکے۔ اگر ہولی کے بعد ہی مباحث قبول کرنا تھا تو پارلیمنٹ کا سیشن بھی ہولی کے بعد شروع کیا جاسکتا تھا ۔ ملک میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے دہلی فسادات سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ ملک کی راجدھانی میں فسادات ہوں اور پارلیمنٹ میں نہیں تو کیا سڑکوں پر مباحث ہوں گے؟ حکومت اور پارلیمنٹ کی ناک کے نیچے تباہی مچائی گئی لیکن قانون سازوں کے پاس مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے وقت نہیں ہے ۔ تقریباً 50 سے زائد افراد کی جانیں تلخ ہوگئیں لیکن ملک کے چوکیدار اور پردھان سیوک کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ہلاکتوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ٹوئیٹ کرتے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کیا یہی ہے؟ دستور کی پاسداری اور تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک اور انصاف کی جو قسم حلف کی صورت میں اٹھائی گئی تھی ، کیا یہی ہے ہلاکتوں پر مگرمچھ کے آنسو تک بہائے نہ جائیں۔ صحافی شاہد صدیقی نے ٹوئیٹ کیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں بی جے پی کے ایک لیڈر نے دہلی واقعات کی تائید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندو راشٹر کے قیام کے لئے اتنی ہلاکتیں کوئی خاص بات نہیں۔ بی جے پی لیڈر کے اس بیان سے دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کی توثیق ہوتی ہے جس میں کہا گیا کہ فسادات یکطرفہ اور منصوبہ بند تھے۔ 2000 غنڈوں کو دیگر مقامات سے دہلی لایا گیا تھا۔

پارلیمنٹ میں کم تعداد کے باوجود اپوزیشن نے دہلی فسادات کے مسئلہ پر کارروائی چلنے نہیں دی۔ کانگریس کے 7 ارکان پارلیمنٹ کو ہنگامہ آرائی پر معطل کردیا گیا۔ ارکان کی معطلی کانگریس کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب کبھی عوامی مسائل پر کانگریس نے حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی تو اس کے ارکان کو معطل کیا گیا ۔ کانگریس دراصل ملک میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کی واپسی کی جدوجہد کر رہی ہے۔ دہلی کے متاثرین اور ملک بھر کے انصاف پسند عوام کو اس وقت حیرت ہوئی جب اپوزیشن قائدین نے متاثرہ علاقوں کے دورہ کی زحمت نہیں کی۔ پہلے دن اجلاس کے التواء کے ساتھ ہی قائدین کو عوام کے درمیان ہونا چاہئے تھا ۔ پرینکا گاندھی کے بعد راہول گاندھی نے متاثرین سے ملاقات کرنے کی ہمت جٹائی ہے۔ کل جماعتی قائدین کا وفد دورہ کرتے ہوئے صدر جمہوریہ کو اپنی رپورٹ پیش کرسکتا تھا ۔ سیکولر قائدین کا یہ حال ہے تو مسلم ارکان پارلیمنٹ کی بے حسی بھی کچھ کم نہیں۔ پارلیمنٹ میں شرکت کے لئے دہلی میں موجود ضرور ہیں لیکن ایک کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کیلئے تیار نہیں۔ جلسوں میں دھواں دھار تقاریر اور شعلہ نوائی کا مظاہرہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ قومی ٹی وی چیانلس پر بھونکنے سے متاثرین کو انصاف اور راحت نہیں مل سکتی۔ مسلم قائدین کب تک لاؤڈ اسپیکر اور مائیک کے سامنے شیر بنے رہیں گے۔ جلسوں اور ٹی وی چیانلس پر ہمدردی کے بول ادا کرنا آسان ہے لیکن متاثرین کے درمیان پہنچ کر دکھ درد میں شامل ہونا حقیقی خدمت ہوگی ۔ ویسے بھی مسلم ارکان پارلیمنٹ کو کسی اور شہر کا سفر کرنا نہیں ہے بلکہ متاثرہ علاقہ اسی دہلی میں ہے جہاں پارلیمنٹ سیشن جاری ہے۔ اب بھی وقت گزرا نہیں ، بہتر ہوگا کہ مسلم ارکان پارلیمنٹ جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر وفد کی شکل میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں۔ عوام نے اس لئے منتخب نہیں کیا کہ صرف ٹی وی مباحثہ میں جائیں اور ملک کو اپنا چہرہ دکھائیں۔ صورتحال کا جائزہ لئے بغیر مباحث میں حصہ لینا بے فیض ہوگا ۔ دہلی کے شاہی امام کہاں لاپتہ ہیں، جن کے پڑوس میں مسلم کش فساد ہوا ہے۔ سیاسی معاملات میں رائے زنی کرنے والے شاہی امام کو کس نے دورہ کرنے سے روک رکھا ہے۔ ان سے بہتر تو پنڈت سری سری روی شنکر ہیں، جنہوں نے مسلم علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے نہ صرف اظہار ہمدردی کیا بلکہ تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ متاثرین کی نظریں مسلم قائدین کو ڈھونڈ رہی ہے کہ وہ کب زخموں پر مرہم رکھیں گے ۔ دہلی میں مسلمانوں پر قیامت صغریٰ پھوٹ پڑا لیکن قیادت بے حس بنی ہوئی ہے۔ آج بھی مسلم بستیوں میں مرد حضرات رات بھر جاگ کر اپنی حفاظت کر رہے ہیں ۔ مودی ، امیت شاہ اور کجریوال سے ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ وہ تو چہل قدمی کے ذریعہ متاثرین تک پہنچ سکتے ہیں لیکن جب خود اپنا دامن داغدار ہے اور مسلم قیادت نے اپنا فرض ادا نہیں کیا تو دوسروں سے کیا شکایت۔ دہلی فسادات دراصل مسلمانوں میں حفاظت خود اختیاری نہ ہونے کا نتیجہ ہے جو کہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ مزاحمت کے بغیر کب تک حشرات الارض کی طرح کچلے جائیں گے؟ قیصر الجعفری نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم آئینہ ہیں دکھائیں گے داغ چہروں کے
جسے خراب لگے، سامنے سے ہٹ جائے