ہم تو وہ تاریخ ہیں ذہنوں میں رہنا ہے جسے

,

   

وقف بل …مسلمانوں کے خلاف گہری سازش
انڈیا الائنس نے روک دیا … بابو اور نتیش سے مسلمان

رشیدالدین
’’باقی بچا تھا وقت اُسے بھی لوٹنے کی سازش‘‘ نریندر مودی حکومت نے مسلمانوں کو ہر محاذ پر نقصان پہنچایا۔ تعلیم، معیشت، تہذیب، تمدن، شناخت الغرض ہر شعبہ میں ناانصافی کے ذریعہ کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ شریعت میں مداخلت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا۔ مخالف شریعت قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کئے گئے تاکہ مسلمان خود کو دوسرے درجہ کا شہری تسلیم کرلیں۔ 10 سال میں جو بن پڑا مودی حکومت نے کیا۔ بابری مسجد چھین کر وہاں مندر تعمیر کردی گئی۔ طلاق ثلاثہ معاملہ میں مخالف شریعت قانون سازی کی گئی۔ شہریت ترمیمی قانون نافذ کردیا گیا۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے خصوصی موقف دفعہ 370 کو ختم کرتے ہوئے 2 ہندو اکثریتی ریاستوں کی تشکیل کی تیاری ہے۔ این آر سی اور این پی آر کے علاوہ کامن سیول کوڈ کا خطرہ برقرار ہے۔ مخالف مسلم ایجنڈہ کی آخری منزل ہندو راشٹر ہے۔ تیسری میعاد میں اکثریت سے محرومی کے بعد یقین ہوچلا تھا کہ بیساکھیوں کے ذریعہ چلنے والی حکومت ہندوتوا ایجنڈے پر عمل نہیں کرپائے گی لیکن مودی کی مسلمانوں سے نفرت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ پوری شدت کے ساتھ ہندوتوا ایجنڈہ کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ نام نہاد سیکولر طاقتیں اپنے مفادات کے لئے جب سے مودی کے حلقہ بگوش ہوگئیں اُس وقت سے جارحانہ فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کرتے ہوئے انڈیا الائنس کی تائید کا مسلمانوں سے بدلہ لیا جارہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آخری حربے کے طور پر مخالف وقف قانون تیار کیا گیا تاکہ ایک طرف شریعت میں مداخلت کی جائے تو دوسری طرف مسلمانوں کی رہی سہی وقف جائیدادوں کو لوٹ لیا جائے۔ ملک میں 8.7 لاکھ اوقافی جائیدادیں فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں چبھ رہی ہیں جن کی مالیت 9.4 لاکھ کروڑ سے زائد ہے۔ مودی حکومت وقف جائیدادوں کو چھین کر مسلمانوں کو کنگال بنانا چاہتی ہے تاکہ ایک گز اراضی پر بھی مسلمانوں کی ملکیت باقی نہ رہے۔ آخر میں مسلمانوں کی شہریت پر شبہات پیدا کرتے ہوئے ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی سازش ہے۔ مسلمانوں کو اسلاف کی وقف کردہ جائیدادوں سے محروم کرنے والے ہرگز نہ بھولیں کہ بھلے ہی وقف اراضیات چھین لی جائیں لیکن انتقال کے بعد ہر مسلمان دو گز زمین کا مالک بن کر اِسی ملک کی سرزمین میں دفن ہوتا ہے جبکہ دوسروں کی ارتھی کی راکھ ندی، نالے، تالاب اور دریاؤں سے گزر کر پتہ نہیں کونسے ملک پہونچ جاتی ہیں۔ مسلمان مر کر بھی مادر وطن سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں جبکہ دوسروں کی حب الوطنی صرف اُن کی سانس تک باقی رہتی ہے اُس کے بعد پتہ نہیں کہاں کہاں بھٹکتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے جان لیں کہ مسلمان کو کمزور کیا جاسکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جاسکتا۔ اسلام اور مسلمان مٹنے کے لئے نہیں بلکہ غالب ہونے کیلئے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اترپردیش میں جس طرح ہزیمت اُٹھانی پڑی اُس کا بدلہ مسلمانوں سے لیا جارہا ہے۔ یوگی کے گڑھ میں 35 سے زائد نشستوں سے محرومی نے بی جے پی قیادت کے ہوش اُڑادیئے ہیں۔ خاص طور پر رام مندر ایودھیا کے حلقہ فیض آباد میں بی جے پی کی شکست نے رام مندر کے سیاسی موضوع کو ہی ختم کردیا۔ مسلمانوں کی بدقسمتی کہئے یا پھر کچھ اور کہ جس کسی کا مسلمان کھل کر ساتھ دیتے ہیں وہ طاقتیں مسلمانوں کی مشکل گھڑی میں کھل کر ساتھ نہیں دیتیں جس کے نتیجہ میں سنگھ پریوار پر کوئی کنٹرول نہیں۔ انڈیا الائنس آج جس مضبوط پوزیشن میں ہے وہ محض مسلمانوں کی تائید کا نتیجہ ہے۔ انڈیا الائنس کی پارٹیوں کو مسلمانوں کی تائید کا اعتراف ہے لیکن ہندو ووٹ سے محرومی کا خوف اُنھیں مسلمانوں کی کھل کر تائید سے روک دیتا ہے۔ انڈیا الائنس کو بھی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں یا پھر مصلحت پسندی کا شعار اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کانگریس اور اُس کی حلیف جماعتوں نے مخالف وقف بل کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے بِل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کرنے کے لئے مجبور کردیا۔ وقف ترمیمی بل کی منظوری کو روکنا انڈیا الائنس اور بالخصوص کانگریس، سماج وادی پارٹی اور ترنمول کانگریس کی اہم کامیابی ہے لیکن آگے بھی بل کو پاس ہونے سے روکنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں برسر اقتدار محاذ کے ارکان کی اکثریت ہوتی ہے۔ ایسے میں بی جے پی اکثریت کی بنیاد پر بل کو پاس کرنے کی سازش کرسکتی ہے۔
لوک سبھا میں وقف ترمیمی قانون کے پاس ہونے میں رکاوٹ دراصل کانگریس زیرقیادت انڈیا الائنس کی پہلی کامیابی ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ راہول گاندھی نے لوک سبھا انتخابات میں الائنس کو مسلمانوں کی تائید کا صلہ دینے کی ایک پہل کی ہے۔ اگر کانگریس اور اُس کی حلیف پارٹیاں لوک سبھا میں کمزور ہوتیں تو سابق میں جس طرح طلاق ثلاثہ بل اور شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی گئی اُسی طرح وقف قانون کو اپوزیشن کے کمزور احتجاج کے دوران منظور کرلیا جاتا۔ انڈیا الائنس کو آئندہ 5 برسوں میں کئی امتحانات سے گزرنا پڑسکتا ہے جس کی تیاری ابھی سے کرنی ہوگی۔ بیساکھیوں پر مودی حکومت کی تشکیل کے بعد مبصرین کا احساس تھا کہ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار پر اعتبار کرنا مشکل ہے کیونکہ اُن کی تاریخ ’’دل بدلُو‘‘ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار دونوں سیکولرازم اور مسلمانوں سے ہمدردی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ وقف ترمیمی قانون دونوں سیکولرازم کے دعویداروں کے لئے پہلا امتحان تھا جس میں اُنھوں نے مسلمانوں کو مایوس کردیا۔ لوک سبھا انتخابات میں بہار میں جنتادل یونائیٹیڈ کا بہتر مظاہرہ اور آندھراپردیش میں چندرابابو نائیڈو کی اقتدار میں واپسی مسلمانوں کی مرہون منت ہے۔ چندرابابو نائیڈو نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی تائید نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے نمائندہ وفد کو تیقن کے باوجود تلگودیشم نے لوک سبھا میں وقف ترمیمی قانون کی تائید کی۔ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار کو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ بھلے ہی مسلمان منتشر دکھائی دیتے ہیں لیکن جب کسی سے بدلہ لینے کی ٹھان لیں تو پھر اقتدار سے بیدخل کرنا اُن کا بنیادی نشانہ ہوتا ہے۔ متحدہ آندھراپردیش میں چندرابابو نائیڈو مسلمانوں کی ناراضگی کا شکار ہوکر اقتدار سے محروم ہوچکے ہیں۔ آندھراپردیش میں جگن موہن ریڈی کی بدقسمتی رہی کہ اُنھوں نے تمام انتخابی وعدوں کی تکمیل کے باوجود اقتدار کھودیا۔ دراصل اُن کی ڈکٹیٹرشپ نے اُنھیں اپوزیشن میں پہنچادیا ہے۔ چندرابابو نائیڈو اگر اپنے آغاز سے ہی مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرتے ہیں تو پھر اُنھیں 2029 ء میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔ ویسے بھی مبصرین نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ جو شخص اپنے خسر کو دھوکہ دے سکتا ہے وہ کسی کو بھی نہیں بخشے گا۔ وقف ترمیمی قانون کے مسئلہ پر مسلمانوں کو اپنی ایمانی حرارت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں وقف قانون کی تائید کرنے والی پارٹیوں کے خلاف اُن کے حلقہ جات میں مسلمانوں کو احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ نریندر مودی حکومت نے جس ڈھٹائی کے ساتھ وقف ترمیمی قانون پیش کرتے ہوئے شریعت میں مداخلت کی کوشش کی ہے اُس کے لئے مسلمان بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں میں انتشار کا بھرپور فائدہ اُٹھاکر بی جے پی فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر مزید پھوٹ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ ملک کی کوئی ریاست ہو اوقافی جائیدادوں کی تباہی کے لئے غیروں سے زیادہ خود اپنے ذمہ دار ہیں۔ جن اداروں کا قیام اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے کیا گیا تھا وہاں مامور عہدیدار اور سیاسی قائدین نے اوقافی جائیدادوں کی تباہی میں اہم رول ادا کیا۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی نے برسوں قبل اوقافی جائیدادوں کی صورتحال پر رپورٹ پیش کی تھی جس میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے قائدین کے چہروں سے نقاب اُلٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ وقف دراصل اللہ کی ملکیت ہوتی ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں اللہ کا خوف ختم ہوچکا ہے لہذا ’’زمین اللہ کی قبضہ عبداللہ کا‘‘ کے نعرے کے تحت اوقافی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہندو مذہبی اداروں میں مسلمانوں کو نمائندگی نہیں دی جاسکتی تو پھر وقف بورڈ میں غیر مسلم نمائندگی کیا معنی رکھتی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں گردوارہ پربندھک کمیٹی میں ہندوؤں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ وقف ترمیمی قانون دراصل نریندر مودی کے قریبی دوست مکیش امبانی کو بچانے کی کوشش ہے۔ ممبئی میں مکیش امبانی نے جو محل تعمیر کیا ہے وہ دراصل وقف اراضی پر ہے اور ہائیکورٹ میں یہ معاملہ زیردوران ہے۔ اب جبکہ عدالت سے مکیش امبانی کے خلاف فیصلے کی اُمید پیدا ہوگئی اچانک وقف ترمیمی قانون تیار کیا گیا تاکہ مکیش امبانی کے محل کو بچایا جائے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
ہم تو وہ تاریخ ہیں ذہنوں میں رہنا ہے جسے
کاغذی پرزے نہیں جو پھاڑ ڈالے جائیں گے