ہم عجیب آواز کاخیرمقدم کرتے ہیں

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

اگر آپ نے کسی مقرر کو تقریر پڑھتے ہوئے سن لیتے تو آپ سمجھتے کہ یہ الفاظ بال گنگادھر تلک کے ہیں یا جواہر لال نہرو کے ہیں ۔ یا جئے پرکاش نارائن کے یا پھر نیلسن منڈیلا کے ہوسکتے ہیں۔ آپ اس میںغلط ہونگے ۔ مقرر معزز وزیراعظم نریندر مودی تھے ۔
یہ الفاظ ان رپورٹرس کیلئے موسیقی سے کم نہیں ہوسکتے جو گذشتہ 11 برسوں سے وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کا ناکامی سے انتظار کر رہے تھے ۔ بالآخر وہ امید کرسکتے ہیں کہ مسٹر مودی ایک لائیو ‘ ٹی وی پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کا جواب نہ دینے کے اپنے عہد کو توڑ دیں گے ۔ یہ الفاظ اداریہ تحریر کرنے والوں کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ محتاط رہتے ہوئے متوازن ادارئے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور انہیں ایسے جملے ’ ایک جانب ‘ اور ’دوسری جانب ‘ تحریر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ۔ یہ الفاظ ایک شریر فنکار میں جذبہ پیدا کریں گے کہ وہ اپنا پنسل نکالے اور کارٹونس تیار کرے اور اس میں کسی کو بخشے نہیں ۔ وزیر اعظم کو بھی نہیں ۔ یہ الفاظ ان ایڈیٹرس کیلئے حوصلے کا باعث ہوسکتے ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنی کہانیاں اس دعاء کے ساتھ دفن کردی ہونگی کہ ’’ قارئین مجھے معاف کریں کیونکہ جو میں کر رہا ہوں وہ میں جانتا ہوں ‘ ۔
حوصلوں کو سلام
مسٹر مودی کے الفاظ یقینی طور پر متاثر کن تھے ۔ رامناتھ گوئنکا کا اصل مقصد حوصلے کی صحافت تھا ۔ یہی مقصد اخبار کا بھی ہوگیا جو انہوں نے ان ہی الفاظ کے ساتھ شروع کیا تھا جو اس کے سرورق پر دکھائی دیتے ہیں ۔ رام ناتھ گوئنکا کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ رام ناتھ جی نے برطانوی ظلم اور سامراج کے خلاف سخت موقف اختیار کیا تھا ۔ اپنے ایک ادارئے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ برطانوی احکام کی تعمیل کرنے کی بجائے اپنے اخبار کو بند کردینا پسند کریں گے ۔ اسی طرح جب ایمرجنسی کی صورت میں ملک کو غلام بنانے کی ایک اور کوشش ہوئی تو رام ناتھ جی یہاں بھی مضبوطی سے کھڑے ہوئے ۔ اور اس سال ایمرجنسی کے نفاذ کے 50 سال پورے ہوئے ہیں ‘ ۔
بہت اچھی بات ہے ۔ تاہم آج کے میڈیا کی حقیقت کیا ہے ؟ ۔ ہندوستان کے معروف اخبارات جدوجہد آزادی کی بھٹی میں فرضی کہانیاں پیش کر رہے ہیں۔ بیشتر افراد نے نہیں سوچا ہوگا کہ آزادی کے 78 برس بعد انہیں ’’ گودی میڈیا ‘‘ جیسا لفظ ایجاد کرنا پڑے گا ۔ یہاں تک کہ قارئین اور ناظرین ہزاروں کی تعداد میں ان سے دور ہو رہے ہیں کئی اخبارات اور چینلس اس لئے ہی ترقی کر پا رہے ہیں کہ انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔
مسٹر مودی نے مزید کہا کہ ’ پچاس سال قبل انڈین ایکسپریسنے یہ دکھادیا تھا کہ سیاہ خالی ادارئے بھی غلام بنانے کی ذہنیت کو چیلنج کرسکتے ہیں ۔۔۔ یہ کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ رام ناتھ جی ہمیشہ سچائی کے ساتھ کھڑے رہے ۔ ہمیشہ اپنے فرض کو ہر شئے پر ترجیح دی چاہے کتنی ہی طاقتور طاقتیں ان کے خلاف کھڑی کیوں نہ رہیں ‘ ۔
تلخ حقیقت
جمہوریت کے چوتھے ستون کی متاثر کن کہانیوں کی جگہ مختلف طرز کی کہانیوں نے لے لی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک ایڈیٹر کی کہانی ہے کہ اسے اپنی مابقی کنٹراکٹ ملازمت کی معیاد کی تنخواہ کا چیک حوالے کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ شام تک اپنا میز خالی کردیں۔ ایک ٹی وی اینکر کی بھی کہانی ہے جس کے ٹی وی پر بہت زیادہ ناظرین تھے تاہم جب چینل کا مالک تبدیل ہوا تو اسے گھر واپس جانے کو کہہ دیا گیا ۔ اسے اس صنعت میں شب خون کہا جاتا ہے ۔ معروف صحافیوں کی حیرت انگیز کہانیاں بھی ہیں جنہیں گذشتہ 10 برس میں اپنی ملازمتیں کھونی پڑیںاور انہیں آج تک کوئی اور روزگار نہیں مل رہا ہے ۔
چند دن قبل مسٹر یشونت سنہا نے پریس کلب آف انڈیا کے ایک اجلاس کی کہانی سنائی جس میں انہیں خطاب کیلئے مدعو کیا گیا تھا ۔ خطاب کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ہلکی سی سرزنش کی کہ وہ ریمارکس شائع نہیں کئے جاتے جو وہ وقتا فوقتا کرتے رہتے ہیں۔ ہر کوئی خاموش تھا ۔ تاہم ایک نوجوان صحافی بول پڑا ۔ اس کا کہنا تھا ’’ سر ۔ میں آپ کے ریمارکس کو رپورٹ کروں گا ۔ اگر میری ملازمت چلی جائے تو کیا آپ ملازمت ڈھونڈ دیں گے ‘‘ ۔ مسٹر سنہا کا کہنا تھا کہ وہ سکتہ میں آگئے اور صرف اتنا کہا کہ ’’ نوجوان ۔ اپنی ملازمت بچاؤ ‘‘ ۔
میری بھی ایک کہانی ہے ۔ سردیوں کی ایک شام میں ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں ایک صحافی کے ساتھ ڈنر کر رہا تھا ۔ رات کے تقریبا 10 بجے اسے اپنے دفتر سے فون آتا ہے ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ فوری اپنے گھر چلا جائے جہاں ایک او بی ویان اس کا انتظار کر رہی ہے ۔ اس کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ایک پہلے سے تیار شدہ بیان پڑھے ۔ اس نے فوری مجھ سے معذرت کی اور واپسی کی تیاری کرنے لگا ۔ میں نے اس سے کہا کہ اس نے اس درخواست کو مسترد کیوں نہیں کیا اور اپنے باس سے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ کسی ایسے رپورٹر کو یہ ذمہ داری سونپیں جو پہلے ہی گھر پہونچ چکا ہو ۔ صحافی نے کہا کہ ’ میری ایک ماں اور باپ ہے ۔ دونوں ہی بوڑھے ہیں اور مجھ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے اپنے گھر کی ای ایم آئی ادا کرنی ہوتی ہے ‘ ۔ وہ معذرت کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا ۔
کچھ صحافی حرص کے تحت کام کرتے ہیں اور کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں۔ کچھ خوف کا شکار رہتے ہیں اور میدان میں بنے رہتے ہیں۔ حرص کا شکار صحافی اپنے شعبہ میں ہر کسی کو خاموش کروادیتے ہیں۔ چیختے چلاتے ہیں ۔ رسواء کرتے ہیں اور فرضی کہانیوں کی ایجاد کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر آپریشن سندور کے دوران کچھ صحافیوں نے یہ کہانی چلائی کہ ہندوستانی بحری جہازوں نے کراچی کے ساحل کو گھیر لیا ہے اور ہندوستانی افواج کراچی شہر میں گھسنے ہی والی ہیں۔
خوف یا آزادی
مسٹر سنہا نے ‘ میں نے اور دوسروں نے جو کہانیاں سنائی ہیں جو آپ نے سنی ہیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ جمہوریت کے چوتھے ستون میں خوف کا ماحول ہے ۔ یقین کریں جو کچھ مجھے باخبر افراد نے کہا ہے اور جو کچھ میں نے پتہ چلایا ہے ایک نظر نہ آنے والا سنسر ہے ۔ تمام بڑے اخبارات اور چینلس پر 24×7 نظر رکھی جا رہی ہے ۔ ایڈیٹرس کو خاموشی میں فون کالس کئے جاتے ہیں ۔ وہاں مخالفین بھی ہیں۔ اگر انہیں نظر انداز کردیا جائے تو پھر مسئلہ پیدا ہوگا ۔ کئی کہانیاں اب بھی جنم لیتی ہیں ۔ کئی دم توڑ جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جس میڈیا کو بخشا گیا ہے وہ چھوٹے میڈیا ادارے ہیں جو ہندوستانی زبانوں میں کام کرتے ہیں ۔ ان میں ہندی میڈیا شامل نہیں ہے ۔ خوف آزادی کا بدترین دشمن ہے ۔ ہندوستان ایک ایسی صحافت رکھ سکتا ہے جو خوف کا شکار ہو یا پھر آزاد صحافت ہو ۔