بغداد۔ 6 ڈسمبر (ایجنسیز) امریکی ایلچی ٹام براک نے عراق کے حوالے سے سابق امریکی حکومتوں کی اختیار کردہ پالیسیوں پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں نے ایران کو مزید مضبوط کیا اور اسے خلا پُر کرنے کا موقع دیا۔ابوظہبی سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’دی نیشنل‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران نے پیش قدمی کی اور عراق میں خلا پُر کیا، کیونکہ ہم نے ایسا پاگل پن کا انتظام کھڑا کر دیا تھا جس کی وجہ سے ایرانی ملیشیاؤں کا اثر و رسوخ عراقی پارلیمنٹ سے بھی زیادہ ہو گیا۔ شام اور لبنان کے لیے امریکی خصوصی ایلچی براک نے کہا کہ عراق ایک واضح مثال ہے اُن غلطیوں کی جنہیں امریکہ کو دوبارہ نہیں دہرانا چاہیے۔انہوں نے عراقی وزیراعظم محمد شیاع السّودانی کو ایک قابل شخص قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے پاس حقیقی اختیار نہیں ہے، کیونکہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اتحاد نہیں بنا سکتے۔ اس کی وجہ الحشد الشعبی پاپولر موبیلائزیشن اور اس کے تمام نمائندے ہیں جو پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور راستہ روکتے ہیں۔براک کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے اور 20 سال گزار دیے، مگر خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا اور امریکہ اس مسئلے کا حل پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اس کے علاوہ براک کا کہنا تھا کہ عراق اور شام میں اصل خطرہ یہ ہے کہ صورتِ حال تقسیم کی طرف بڑھ سکتی ہے اور وفاقی جمہوریائیں وجود میں آسکتی ہیں جن میں کرد اکثریتی علاقوں کو خود مختار حیثیت مل جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے یوگوسلاویہ میں ہوا۔انہوں نے خبردار کیا کہ تقسیم اور مختلف وفاقی ماڈلوں پر عدم اتفاق خطرناک ہو سکتا ہے۔ براک کے مطا بق وفاقی اکائیاں بنا بھی دی جائیں تو ممکن ہے وہ بہت مختصر عرصہ کیلئے چلیں اور پھر لڑائی شروع ہو جائے۔براک حالیہ عرصے میں مسلسل یہ موقف اختیار کرتے رہے ہیں کہ شام کی علاقائی وحدت برقرار رہنی چاہیے، وہ دمشق اور سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے درمیان ثالثی کے عمل میں بھی شامل رہے ہیں۔