ہندوتوا کی جارحیت کیخلاف عوام کا احتجاج، ملک بھر میں قوم پرستی کی لہر

,

   

شاہین باغ سے حوصلہ پاکر احمدآباد میں بھی لاکھوں افراد کا اظہار یگانگت ، مسلمانوں کے سیاسی قوتِ ارادی میں اضافہ

نئی دہلی 17 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ہندوتوا کی جارحیت کے خلاف ملک بھر میں عوام کے احتجاج نے قوم پرستی کی نئی لہر پیدا کردی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کو مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کی ناقابل تردید بھاری تعداد سراپا احتجاج بن چکی ہے جو ہندوستان میں قوم پرستی کے نئے جوش و جذبہ کا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کے سیاسی قوت ارادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے طلاق ثلاثہ پر پابندی، بابری مسجد مسئلہ کی یکطرفہ یکسوئی پر خاموشی اختیار کرنے والے مسلمانوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پے در پے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ہے جس کے بعد مسلمانوں کے اندر قوم پرستی کے ساتھ سیاسی جذبہ کو توانائی حاصل ہورہی ہے۔ دہلی کے شاہین باغ میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری مخالف سی اے اے احتجاج نے ہندوستانی عوام کو حوصلہ بخشا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست میں بھی عوام سی اے اے کیخلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ احمدآباد میں لاکھوں افراد نے راکھیل علاقہ میں جمع ہوکر شاہین باغ احتجاجیوں سے اظہار یگانگت کیا۔ اجیت مل شاہراہ غریب آواس یوجنا مقام پر دوسرے دن بھی بیٹھے رہو احتجاج جاری رہا۔ یہ علاقہ ریاستی حکومت کی امکنہ اسکیم کے لئے مختص کیا گیا تھاجہاں مسلم غلبہ والی آبادی ہے۔ زائداز 700 مکانات سے نکل کر عوام نے اِس احتجاج میں حصہ لیا۔ احتجاج کے منتظمین میں سے ایک کلیم صدیقی نے کہاکہ ابتداء میں چند مسلم خواتین جمع ہوئی تھیں۔ بعدازاں دیکھتے ہی دیکھتے اطراف و اکناف کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اِس میں شامل ہوگئے۔ یہ علاقہ چونکہ خانگی ملکیت کا حامل ہے اِس لئے یہاں پولیس کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ خواجہ غریب نواز کوآپریٹیو ہاؤزنگ سوسائٹی کے سکریٹری محمد شریف سعید نے یہ بات بتائی۔ احتجاج کا مقصد سی اے اے کے تعلق سے عوام میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ 53 سالہ رخسانہ شیخ نے کہاکہ ہم سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے سلسلہ میں عوام میں شعور بیدار کررہے ہیں۔ 2002 ء کے فسادات میں میرا سب کچھ جل گیا جس میں میرے دستاویزات بھی خاکستر ہوگئے۔ اب کاغذات کہاں سے لائیں۔ سابرمتی کے کنارے سلم علاقہ میں رہنے والے ان کے ارکان خاندان اُس وقت بے گھر ہوگئے جب دریا کے کنارے ترقیاتی کام انجام دینے کے لئے وہاں سے لوگوں کا تخلیہ کرایا گیا۔ مسلمانوں کے احتجاج سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی سیاست سے انھیں حوصلہ حاصل ہورہا ہے۔ عوامی تحریک میں وہ لوگ بھی شامل ہورہے ہیں جنھیں حقوق سے محروم رکھا گیا۔ ان میں دلت، آدی واسی، کسان وغیرہ شامل ہیں۔ مسلم احتجاجی یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سی اے اے کیخلاف اِن کا یہ احتجاج غیر سیاسی ہے۔ ہندوتوا کی جارحیت کے خلاف عوام کا اِس طرح جوق درجوق جمع ہونا ایک نئے ہندوستانی قوم پرستی کا ثبوت ہے۔ بی جے پی کی ہندو قوم پرستی کے حق میں جاری مہم کے جواب میں جاریہ احتجاج ہندوستان کو ایک نئی سمت عطا کرے گا۔