ہندوستانی معیشت، ڈاکٹر منموہن کی جرأت و ہمت کی ضرورت ہے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

مصنف کا نوٹ : راقم الحروف یہ کالم سال 2014 سے لکھ رہا ہو ، اس سے قبل میں 1999 – 2004 کے دوران یہ کالم لکھتا رہا۔ ہر ہفتہ کالم لکھنا کوئی آسان کام نہیں لیکن میں نے یہ کام بڑے محظوظ انداز میں کیا ۔ اخبارات کے ایڈیٹروں سے مشورہ کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کالم لکھوں گا لیکن وقفہ وقفہ سے ضبط تحریر میں لاؤں گا ۔ آپ تمام سے میں اظہار ممنونیت کرتا ہوں کیونکہ آپ تمام میرا کالم پڑھتے ہیں ۔ راقم نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ آپ سب کو ملک کی اقتصادی حالت کے ساتھ ساتھ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے واقف کرواتا رہوں ۔
سابق گورنر ریزرو بینک آف انڈیا ڈاکٹر سی وی رنگا راجن 93 برس کی عمر میں بھی ایک کھلی اور محتاط اقتصادی نظم و ضبط کے حامی ہیں ( خدا ان پر رحم کرے ) وہ برسوں تک مرکزی بنکر رہے ۔ ڈاکٹر رنگا راجن کو 1992 تا 1997 ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے ۔ 4 اکٹوبر 2025 کو انہوں نے مسٹر ڈی کے سریواستو کیساتھ ملکرہندوستان کے امکانی شرح نمو کے تخمینہ یا اندازہ کے بارے میں ایک خصوصی مضمون لکھا جس میں ہمارے ملک کی امکانی شرح نمو سے متعلق اچھا تبصرہ کیا ۔ دونوں اپنے مضمون میں اس نتیجہ پرپہنچے کہ ہمارے ملک کا امکانی شرح نمو 6.5 فیصد سالانہ ہے ۔ ڈاکٹر رنگا راجن نے یہ بھی لکھا کہ موجودہ عالمی حالات یا تناظر میں شرح نمو معقول حد تک بلند ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اگر ہمیں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرتے ہیں تو ہمیں اپنی امکانی شرح نمو کو مزید بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میرے خیال میں کئی برسوں سے 6.5 فیصد کا اوسط شرح نمو مایوس کن ہے یہ ایسی شرح نمو ہے جو ہندوستان کو ایسے ملکوں کی فہرست میں رکھتی ہے جو نچلے اوسط آمدنی کے حامل ہیں ۔ ان ممالک کی ایسی بھی تعریف و تشریح کی جاسکتی ہے کہ ایسے ملک جن کی گراس نیشنل فی کس اوسط آمدنی 1146 اور 4515 ( سال 2024-25) ہے ۔ اگر ہم ہندوستان کی گراس نیشنل انکم کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ 2024 میں 2650 ڈالرس ہے ۔ میں نے مذکورہ سطور میں جن ملکوں کے گروپ کی بات کی ان میں مصر ، پاکستان ، فلپائن ، ویٹنام اور نائیجریا شامل ہیں ۔ اگر ہندوستان کو Lower Middle Income کے حامل ملکوں کی فہرست سے باہر نکلنا ہو تو اس کیلئے ہندوستان کی فی کس اوسط جی این آئی کو دگنا کرنا ہوگا ۔ اگر ہندوستان کی موجودہ شرح نمو کو برقرار رکھنا ہو تو شرح نمو کا جو ہدف ہم نے مقرر کر رکھا ہے اس مقصد کے حصول میں 9 برس لگ جائیں گے اور بیروزگاروں کی صورتحال مزید ابتر ہوسکتی ہے ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے مالی سال 2025-26 کیلئے نمو کا تخمینہ 6.5 فیصد تا 6.8 فیصد مقرر کیا گیا ہے لیکن اس نے بیروزگاری کے بارے میں بہت کم کہا ہے ( ار بی آئی بلیٹن ، ستمبر 2025 معیشت کی حالت ) ۔ وزارت فینانس نے اگست کے ماہانہ اقتصادی جائزہ میں 6.3 سے6.8 فیصد کی شرح نمو کا تخمینہ پیش کیا لیکن کوئی خاص رائے ظاہر نہیں کی ۔ عالمی بینک نے 2025-26 میں ہندوستان کی شرح نمو 6.5 ظاہر کی مگر 2026-2027 کیلئے اسے 6.3 فیصد تک کم کردیا ۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) نے 2025 کیلئے ہندوستان کی شرح نمو 6.6 فیصد اور 2026 کیلئے 6.2 فیصد بتائی ۔ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) نے 2025-26 کے لئے 6.7 فیصد اور 2026-27 کیلئے 6.2 فیصد کی پیش قیاسی کی ۔ ان تمام تخمینوں اور اندازوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی شرح نمو آئندہ برسوں میں 6.5 فیصد کے قریب رہے گی یعنی ڈاکٹر رنگا راجن کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے ۔ یہاں ایک اور نکتہ اہم ہے ۔ GFCF رکاوٹ، اس بارے میں آپ کو بتائیں کہ ہندوستان کی شرح نمو موجودہ مالی سال میں 6.5فیصد رہے گی اور اگلے سال 0.2 فیصد کم ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر سی رنگا راجن کے مطابق اس سست رفتار نمو کی بڑی وجہ Gross Fixed Capital Formation (GFCF) یعنی کل مستحکم سرمایہ کاری جو پچھلے کئی برسوں سے جمود کا شکار ہے ۔ 2007-08 میں GFCF مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی ) کا 35.8 فیصد تھی جو مالی سال 2024-25 میں 30.1 فیصد رہ گئی ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں میں یہ شرح 28 سے 30 فیصد کے درمیان رہی ہے ۔ پرائیوٹ فکسڈ کیپٹل فارمیشن (PFCF) جو جملہ سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ ہے وہ بھی 2007-08 میں 27.5 فیصد سے گھٹ کر 2022-23 میں 23.8 فیصد رہ گئی ۔ ڈاکٹر رنگا راجن نے International Credit Output Ratio کا حوالہ دیا لیکن اسے ایک ثانوی عنصر قرار دیا ۔ ان کے مطابق جب تک GFCF یا PFCF میں بہتری نہیں آتی ہندوستان کی شرح نمو 6.5فیصد پر رُکے رہے گی ۔
سرمایہ کاری آخر کیوں رک گئی ؟ نجی سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری سے کیوں کتراتے ہیں اس کی سب بڑی وجہ حکومت اور معیشت کے باہمی اعتماد کا فقدان ہے ۔ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے کئی موقعوں پر اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے اور سرمایہ کاروں کیلئے متعدد ترغیبات کی پیشکش کی لیکن ہندوستانی سرمایہ کار اُن کی پیشکشوں سے متاثر نہیں ہوئے ۔ ان لوگوں نے سرمایہ مشغو ل کرنے کی بجائے رقومات کا ذخیرہ کرنے کی کوشش کی ، دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائی ۔ Insolvent کمپنیاں حاصل کی یا پھر بیرونی ملکوں میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دی ۔ اگر ہم ترقی کی بات کریں تو آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک ترقی پذیر ملک میں کسی بھی حکومت کی کامیابی کا معیار اس کی وہ صلاحیت ہے جسے بروئے کار لاکر معیاری بنیادی سہولتوں کی تعمیر کرے اور روزگار کے معیاری مواقع پیدا کرے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلے دہائی میں جو بنیادی سہولتوں کی تعمیر کی گئی ان کی تعداد اچھی خاصی رہی ( خرچ کی گئی رقم بھی بہت زیادہ تھی ) لیکن اس کا معیار ناقص رہا مثال کے طور پر ازکار رفتہ ڈیزائن اور ٹکنالوجی ، گرتے ہوئے پل ، منہدم ہوتی عمارتیں اور وہ کٹی سڑکیں جو بچھائے جانے کے بعد پہلی بارش میں بہہ جاتی ہیں ۔ جہاں تک بیروزگار نوجوانوں کو معیار روزگار کی فراہمی کا سوال ہے صورتحال بہت زیادہ ابتر ہے باالفاظ دیگر بد سے بدتر ہے ۔ تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی شرح کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ 29.1 فیصد ہے ۔ نوجوانوں کی شرح 45.4 فیصد ہے ۔ صرف اسکولی تعلیم حاصل کرسکے یا اسکولی تعلیم کے دوران ہی ترک تعلیم کرنے والے لوگ غیر مستقل کام کرتے ہیں یعنی وہ جو بھی کام کرتے ہیں عارضی ہوتے ہیں ،جزوقتی ہوتے ہیں ایسے میں وہ ملک کے دوسری ریاستوں اور مقامات بالخصوص شہری علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں ۔ ماہ ستمبر میں بیروزگاری کی شرح 5.2 فیصد بتائی گئی ہے جو اتنی ہی مضحکہ خیز ہے جتنی سرکاری رٹیلمہنگائی کی شرح 1.54 فیصد کی جی ڈی پی ترقی کی شرح اطمینان کا باعث ہیں ۔ 6.5فیصد کا مطلب یہی ہے کہ ہمارا ملک اوسط آمدنی کے جال میں پھنس چکا ہے اور اس کے یہاں نئے خیالات ہیں اور نہ ہی حوصلہ کہ ان چیزوں سے باہر نکل سکیں۔ یہ وقت ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت کو اور ڈاکٹر سنگھ کے غیر معمولی عزم و حوصلوں کو یاد کرنے کا ہے جن کے غیر معمولی اقتصادی فیصلوں نے ہندوستان کی معیشت کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔