ہندوستان کو نئے اقتصادی ماڈل کی ضرورت

   

کپل سبل
ہندوستان قدرتی وسائل سے ملامال ملک ہے اور جب ان وسائل کے استعمال کی بات آتی ہے تو ہمیں ترقی کے نئے اقتصادی ماڈل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن ایک پالیسی کی حیثیت سے حکومت خانگی شعبہ کو ان قدرتی وسائل کے استحصال کی بنا کسی جھجھک کے اجازت دے رہی ہے حالانکہ قدرتی وسائل کا استعمال عوام کی بہتری ترقی و خوشحالی کے لئے بہت ہی منصوبہ بند انداز میں کیا جانا چاہئے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ہم سیاستدانوں اور تاجرین یا صنعت کاروں کے ساز باز پر مبنی سرمایہ کاری کی ایک منفرد قسم کی جانب بڑھ رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس عمل میں غیر معمولی اور اہمیت کے حامل عوامی اثاثہ جات اور وسائل وہ لوگ استعمال کررہے ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے عناصر کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ایک طرح سے ہندوستان ایک ایسی معیشت بنتا جارہا ہے جس پر پوری طرح متمول طبقہ کا کنٹرول ہے جہاں قدرتی وسائل پر جو کہ عوامی اثاثہ جات ہیں چند لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ جواب میں وہ لوگ نہ صرف خود کا فائدہ کرتے ہیں بلکہ اپنے سیاسی آقاوں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اس تمام عمل میں اگر کسی کا نقصان ہوتا تو وہ عام آدمی یا عام شہری ہے۔ ویسے بھی معاشی خوشحالی کے بغیر اقتصادی اہرام کے بالکل نچلی سطح پر زندگی گذارنے والوں کو غربت کے دلدل سے نہیں نکالا جاسکتا۔ انہیں خطہ غربت سے نکالنے اور ترقی و خوشحالی کی جانب رواں دواں کرنے کے لئے ترقی کا ایک ماڈل درکار ہوتا ہے ایسا ماڈل جو مختلف اقتصادی کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کو ایک مقام عطا کرے لیکن جب قدرتی وسائل کی سطح روبہ زوال ہوتی ہے تو پھر تاجرین و صنعتکاروں کا وحشیانہ جذبہ عروج پانے لگتا ہے جہاں تک ہمارے ملک میں معیشت اور معاشی وسائل کا سوال ہے یہ چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امیر اور غریب کے درمیان ناقابل یقین حد تک تفاوت بڑھ گیا ہے۔ متمول طبقہ کا جہاں تک سوال ہے یہ آبادی کے تقریباً 10 فیصد حصہ پر مشتمل ہے جس میں سے صرف ایک فیصد امیر ترین افراد 42.5 فیصد دولت اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں یعنی 2019 میں جو قومی دولت کے تعلق سے اعداد و شمار آئے تھے اس میں سے 42.5 فیصد دولت پر ایک فیصد امیروں کا قبضہ تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نچلی سطح پر زندگی گذارنے والے 50 فیصد لوگوں کے قبضہ میں صرف 2.8 فیصد دولت ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کا 10 فیصد متمول طبقہ جملہ قومی دولت کا 74.3 فیصد حصہ اپنے پاس رکھتا ہے اور مابقی 90 فیصد حصہ کے قبضہ میں صرف 25.7 فیصد قومی دولت پائی جاتی ہے۔

جاریہ سال جنوری میں آکسفام نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک فیصد امیر ترین ہندوستانی 953 ملین لوگوں کی مجموعی دولت سے 4 گنا زیادہ دولت رکھتے ہیں یعنی وہ 70 فیصد ہندوستانیوں کی دولت سے 4 گنا زیادہ کے حامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہندوستان میں 800 ملین لوگ ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 10 ہزار روپے ہے۔ اس طرح یہ کامیاب اقتصادی ماڈل کی کسی بھی طرح بنیاد نہیں ہوسکتی۔ ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ شعبہ جاتی سطح پر حکمت عملی طے کی جائے، مثال کے طور پر مواصلاتی شعبہ کو لیجئے جس نے مواصلاتی شعبہ میں انقلاب برپا کردیا ہے اور آج کمیونکیشن کے ذرائع تقریباً ایک ارب لوگوں کی چوکھٹ پر پہنچ گئے ہیں۔ اس شعبہ کا جو قرض ہے وہ 31 مارچ تک 4.4 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہے جن میں اے جی آر بقائے بھی شامل نہیں۔ جاریہ سال الفرڈ نوبل کی یاد میں اقتصادی علوم کے لئے دیئے جانے والے سیورئیجس رکس بینک پرائز پال آر ملگرام اور رابرڈ بی ولسن کو دیا گیا۔ انہوں نے آکشن تھیوری میں بہتری لائی اور نئے آکشن فارمیٹس کی اختراع کی۔ اگر ہندوستان میں آکشن فارمیٹس بہتر ہوتے ہیں تو اس سے قدرتی وسائل کے بہتر انداز میں استعمال کی راہ ہموار ہوگی۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں کوئیلے کے بلاس کا آکشن کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان آکشنس کے اس عمل سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا، بلکہ کوئیلے کے بلاکس کی بولیاں طلب کرنے سے توانائی اور معیشت کے دیگر کلیدی شعبوں پر اثر ہوا ہے۔ کوئیلے کی ہماری دیسی پیداوار بازار کی طلب پوری کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ زیادہ قیمت پر کوئلے کی درآمد اس صنعت کو متاثر کررہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کے تھرمل کوئیلہ درآمدات میں 2017 سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ درآمدات 2019 میں تقریباً 200 ملین ٹن رہی۔ اس کا مطلب سال بہ سال اس میں 12.6 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے قدرتی وسائل بشمول معدنیات، ہواؤں کی لہروں یا دیگر اثاثے جو عوام کی خدمت کے لئے ہیں ان کی ترسیل کے پیچھے کارفرما مقاصد کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر اس کا مقصد حکومت کو فائدہ پہنچانا ہے تو نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا ساتھ ہی عوامی مفادات متاثر ہوں گے۔ اگر اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے لئے بازار کی قیمت پر اراضی کی بولی لگائی جاتی ہے تو صرف چند افراد ہی سرمایہ مشغول کریں گے کیونکہ اثاثہ کی قیمت تاجرین یا صنعت کاروں کو معاشی طور پر پیچھے کردیں گی۔

یقینا عوامی اثاثے معمولی قیمتوں پر تقسیم نہیں کئے جاسکتے کیونکہ یہ مفاد عامہ کے خلاف ہے۔ ایسے میں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسا اقتصادی نمونہ تقلید کیا جائے جس میں حکومت کا صنعت کا جانب سے حاصل کردہ فائدہ میں حصہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوامی اثاثے عوام کی بہتری کے لئے ہو۔ حکومتوں کو سرکاری یا عوامی اثاثوں کے بارے میں مضبوط پالیسی اختیار کرنی چاہئے تاکہ خانگی کاروباری ادارہ استحصال نہ کرنے پائے۔ بدنیتی اور سرمایہ کاروں و تاجرین کی ساز باز پر مبنی بولیوں یا آکشنس صنعت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔ غرض قدرتی وسائل کا بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے اسے عوامی بہبود کا ایک مضبوط ذریعہ بنایا جانا چاہئے اور اس سے اقتصادی و سماجی سیڑھی کی نچلی سطح پر رہنے والوں کے لئے خوشحالی و ترقی کے مواقع پیدا کرنے چاہئے۔ فی الوقت ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں لگتا ہے کہ ہم اپنی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں خانگی مفادات کو عوام کی بہتری پر ترجیح دی جارہی ہے۔