یوپی مدرسہ ایکٹ غیر آئینی نہیں، ہائیکورٹ کا فیصلہ غلط تھا

,

   

اترپردیش میں 16,000 مدارس کو بڑی راحت، چیف جسٹس چندرچوڑ کی بنچ کا تاریخی فیصلہ

نئی دہلی: اتر پردیش میں 16,000 مدارس کو بڑی راحت دی۔جب چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں تین ججوں کی بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس نے قانون کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مدرسے کے طلباء کو باقاعدہ اسکولنگ سسٹم میں شامل کرے۔بنچ جس میں جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل ہیں، نے کہا کہ ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے غلطی کی ہے کہ اگر قانون سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے ختم کر دینا چاہیے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت (مدارس میں) تعلیم کے معیار کو ریگولیٹ کر سکتی ہے۔ تعلیم کے معیار سے متعلق ضوابط مدارس کی انتظامیہ میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔بنچ نے مزید کہا کہ یہ ایکٹ مدارس کے روزمرہ کے انتظام میں براہ راست مداخلت نہیں کرتا ہے۔ یہ قانون ریاست کی مثبت ذمہ داری سے مطابقت رکھتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بچوں کو مناسب تعلیم حاصل ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس لیے کہ مدارس کے لیے قانون سازی میں کسی قسم کی مذہبی تربیت شامل ہے اسے غیر آئینی نہیں بناتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ صرف فاضل اور کامل کے تحت ڈگریاں دینے میں غیر آئینی ہے کیونکہ اس شق سے یو جی کے ضوابط کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایکٹ اتر پردیش میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ہے اور یہ حکومت کی اس ذمہ داری کے مطابق ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ طلباء پاس آؤٹ ہوں اور اچھی زندگی گزاریں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ مدرسہ بورڈ روزمرہ کے کام کاج میں مداخلت نہیں کرتا۔صرف معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بورڈ اور ریاستی حکومت کو مدارس کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت مدارس کو معیاری تعلیم کے لیے ریگولیٹ کر سکتی ہے۔عدالت نے کہا کہ ریاست مدارس کے کام کاج کو ریگولیٹ کر سکتی ہے تاکہ طلباء قابلیت کی سطح حاصل کر سکیں۔ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مدارس کو ریگولیٹ کرنے میں ریاست کی دلچسپی اہم ہے۔ سپریم کورٹ نے مدرسہ بورڈ کی فاضل اور کامل کی ڈگریوں کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ یو جی سی کا استحقاق ہے۔یوپی کے مدارس میں ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ تک کی ڈگری ہے۔ اس کے بعد فضیل اور کامل ہوتا ہے۔ مدارس نے ان کورسز کو یو جی سی سے تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یو جی سی نے اس پر ابھی تک منظوری نہیں دی ہے، مدارس نے فاضل اور کامل کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت مانگی تھی۔ سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا کہ یہ حق یو جی سی کا ہے۔

تمام خانگی املاک پر حکومت قبضہ نہیں کر سکتی: سپریم کورٹ

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج ایک تاریخی فیصلے میں کہا کہ تمام خانگی جائیدادیں کمیونٹی وسائل کے طور پر حاصل نہیں کی جاسکتی ہیں جنہیں ریاست عام بھلائی کے لیے سنبھال سکتی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں نو ججوں کی آئینی بنچ نے 8-1کی اکثریت کے ساتھ اس متنازعہ مسئلہ پر فیصلہ سنایا۔ تین فیصلے لکھے گئے – چیف جسٹس نے ایک اپنے اور چھ ساتھیوں کے لیے لکھا، جساٹس بی وی ناگارتھنا نے ایک ساتھ لیکن الگ فیصلہ لکھا اور جسٹس سدھانشو دھولیا نے اختلاف کیا۔سال 1978 کے تمام فیصلے پلٹ گئے سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں واضح کیا ہے کہ حکومت تمام نجی جائیدادیں حاصل نہیں کر سکتی۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ نے 1978 کے بعد کے فیصلوں کو پلٹ دیا ہے جس میں ایک سوشلسٹ تھیم کو اپنایا گیا تھا۔ حکومت مشترکہ مفاد کے لیے تمام نجی جائیدادوں پر قبضہ کر سکتی ہے۔ سی جے آئی نے سات ججوں کی اکثریتی فیصلہ لکھتے ہوئے کہا کہ تمام پرائیویٹ جائیدادیں فزیکل وسائل نہیں ہیں اور اس لیے حکومتوں کو اس پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔سی جے آئی نے 9 ججوں کی بنچ کے معاملے میں اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ اکثریت نے جسٹس کرشنا ائیر کے سابقہ فیصلے کو مسترد کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ تمام نجی ملکیت کے وسائل ریاست حاصل کر سکتی ہے۔ بینچ کا کہنا ہے کہ پرانی حکومت ایک خاص معاشی اور سوشلسٹ نظریے سے متاثر تھی۔سپریم کورٹ نے کہا کہ پچھلے 30 سال میں متحرک اقتصادی پالیسی اپناتے ہوئے، ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن گیا ہے۔وہ جسٹس ائیر کے اس فلسفے سے متفق نہیں ہیں کہ ہر جائیداد بشمول پرائیویٹ افراد کی جائیداد کو کمیونٹی ریسورس کہا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے کہاکہ 1960 اور 70 کی دہائی میں سوشلسٹ معیشت کی طرف جھکاؤ تھا، لیکن 1990 کی دہائی سے توجہ مارکیٹ پر مبنی معیشت کی طرف مبذول کر دی گئی۔ ہندوستان کی معیشت کی سمت کسی خاص قسم کی معیشت سے دور ہے، بلکہ اس کا مقصد ایک ترقی پذیر ملک کے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے۔