عثمان شہید (ایڈوکیٹ)
بلبل گلستان جیسے پرندے کو آواز لگانے کی ہمت ہے، چخوا چخوی بھی اپنے چمن میں لرزہ پیدا کردیتے ہیں، مینا جیسی ننھی جان بھی اپنی سنجیدہ آواز سے ماحول کو سنجیدہ بنا دیتی ہے یہاں تک کہ کوئل ماحول کی ردا تک شکیستہ کردیتی ہے کو ابھی کچھ کم نہیں یہ بھی اپنی کرحت آواز سے حالات کے سِتار مرتعش کردیتا ہے، لیکن افسوس خدا واحد ؤ لا شریک لاہو سے ڈرنے والے انسان اپنے جیسے انسان سے خوفزدہ ہیں اور ماحول کی سنگینی کی وجہ آواز اٹھانے سے ڈر رہے ہیں۔
پرواز پر ہے روک چھکنا بھی ہے گناہ
کب تک قبول ہم یہ نظام چمن کریں
جو صریح بزدلی نامردگی ہے۔
اب ہندوستان کے حالات بہت بگڑ چکے ہیں۔ کل تک ٹوپی کو سلام کرنے والے اب ٹوپی کو اچھال رہے ہیں۔ قرآن کا احترام کرنے والے نعوذ باللہ قرآن کو کچل رہے ہیں۔ قرآن کا احترام کرنے والے اب نعوذ باللہ قرآن کو جلا رہے ہیں۔ قرآن کو جلانے والے اب قرآن کو بدلنے کی بات کررہے ہیں۔ یہ سب سیکولرزم کی آڑ میں ہو رہا ہے۔ یہ سب سیکولرازم کو بدلنے کی ہندوتوا کی ناپاک سازش ہو رہی ہے۔ مخالف اسلام کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ پڑھی جارہی ہیں۔ بولی جارہی ہیں۔ تاکہ ہندو مذہب کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو۔ خاموش رہ کر ظلم یہ کب تک برداشت کریں؟ افسوس صد افسوس مسلمانوں نے کوے سے تک سبق نہیں سیکھا جو اپنی بھدی آواز میں فضاء کو مرتعش کردیتا ہے۔ جو سننے والوں پر گراں گذرتی ہے اور وہ کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔
مسلمانوں کی خاموشی ایک طرف ان کی بزدلی کا ثبوت ہے۔ تو دوسری طرف مخالفین اسلام کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ مسلمانوں نے اپنی شجاعت اور بہادری بے خوفی نڈر پن کی تاریخ بنائی ہے۔ ’’اندلس‘‘ کو مسلمانوں نے 7 ہزار کی تعداد میں رہ کر شہنشاہ لاڈرک کی ایک لاکھ فوج کو شکست دے کر فتح کیا تھا۔ اس سے قبل 313 جنگ بدر میں 1000 پر سبقت لے گئے۔ 500 مسلمانوں نے 40 لاکھ رومیوں کی فوج کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ بابر نے ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ ہندوستان پر حملہ کیا تھا اور فاتح ہوا تھا۔ اس طرح انسانی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں ہمیشہ ایک مٹھی بھر تعداد میں دشمنوں کا مقابلہ کیا اور فاتح ہوئے لیکن موجودہ دور میں کروڑوں مسلمان سمندر کی جھاگ کی طرح ہیں پھر بھی اتحاد نہ ہونے کی وجہ اور آپسی اختلافات کی وجہ ہر محاذ پر بدترین شکست سے دوچار ہیں۔ شرم ہم کو مگر نہیں آتی۔ پہلے آتی تھی بہت آتی تھی اب کِسی بات پر نہیں آتی ۔ ایک نعش کی طرح مردہ ضمیر لئے پھر رہے ہیں۔عملی اعتبار سے نہ سہی کم از کم گفتار کے غازی تو بنتے اور اس طرح گفتار کا کفن پہن کر زندگی کو پُر بہار بنا دیتے تھے مگر افسوس مسلمانوں سے یہ تک نہ ہوسکا۔ اب صرف بولنے کی حد تک محدود چند تنظیمیں رہ گئی ہیں۔ بقول اقبالؔ
اقبال بڑا اوپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
جب تک مسلمان متحد رہے متفق رہے ایک صف میں کھڑے رہے وہ فاتح رہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت انہیں جھکا نہ سکی اور نہ انہیں شکست دے سکی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ چیونٹی نے پہاڑ سے ٹکر لی پہاڑ کو پاش پاش کردیا۔ پہاڑ نے چیونٹی سے ٹکر لی اور جیونٹی کو پاش پاش کرنے کے بجائے خود پاش پاش ہوگیا۔ تاریخ دیکھتی رہی محوہ حیرت بنی رہی۔
بی جے پی ہندوستان کے سیاسی درخت پر بیٹھی چہچہارہی ہے۔ اس کے قیام کا اصل مقصد نازی ازم کو جنم دینا تھا تاکہ ہٹلر دوبارہ پیدا ہوسکے اور ہٹلر دوبارہ مودی کی شکل میں پیدا ہو گیا۔ جیلوں میں رہ کر بی جے پی والوں نے نازی ازم کا خوب مطالبہ کیا اور منصوبہ بنانے لگے کہ کس طرح یہودیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچایا جائے اور بے دخل کیا جائے۔ یہی منصوبہ ہے جس پر اب یہودیوں کے ساتھ مل کر بی جے پی عمل پیرا ہے اور وہ ایسی دہشت پیدا کررہے ہیں کہ مسلمان جو کل تک شمیر کار و کاف تھے وہ آج ترکاری کی چھڑی بن گئے ہیں۔ جو کل تک تلوار بے پناہ تھے وہ بہ شکل عصا پیری جہاں نیاہ بن گئے ہیں۔ مسلمان یاد رکھیں کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ چیونٹی بھی دب کر ہاتھی کو مار ڈالتی ہے۔ مسلمان پوری طرح بے دار ہو جائیں۔ ہر عورت اپنے دوپٹہ کو پرچم بنا لے۔ اب حالات نے پلٹا لیا ہے چوہا شیر بن گیا۔ خرگوش چیتا بن گیا ہے۔ لوجہاد، ماب لیچنگ، گاؤ کشی، اپنے ملک میں تاریکی کا راج اور لاقانونیت ہے اور مسجدوں کو ڈھانا بھی عام بات ہوگئی ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
یہ دنیا آخر فانی ہے
اور جان بھی ایک دن جانی ہے
پھر تجھ کو کیوں حیرانی ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
کافی نہیں ہے خدمت لوح قلم فقط
اب وقت ہے کہ خدمت دار و رسن کریں
ضروری نہیں کہ ہر آدمی تلوار اٹھالے نہ ہی یہ اس مضمون کا مقصد ہے
مثال کے طور پر ترکی لے لیجئے کن کن محاذوں پر امریکہ سے لڑ رہا ہے۔ جبکہ بی جے پی اس کے سامنے ایک دودھ پیتہ بچہ ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں امریکہ اور دیگر اسرائیلی طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں کی تباہی کے درپہ رہتی ہیں اور وہ ان تمام ممالک کی تباہی چاہتی ہیں۔ جہاں اسلام کا نام لیا جائے پہلے اس طرح کا معاملہ افغان نشان کے ساتھ تھا آج ترکی نشانہ پر ہے کیونکہ ترکی میں اسلام زور پکڑ رہا ہے، جیسا جیسا یہ زور پکڑ رہا ہے ویسا ہی امریکہ کی تشویش بڑھتی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایک سازش سامنے آتی جس کی کڑیاں C.I.A سے ملتی ہیں۔ C.I.A نے اپنے ایک جاسوس Andrio کو ایک پادری کے روپ میں ترکی کے ایک شہر روزیر میں تعینات کیا۔ اس پادری کی مشکوک سرگرمیوں پر ترک حکومت کو اس پر شک ہوا ترکی کی خفیہ ایجنسی نے جب اس کو اپنی حراست میں لیکر تفتیش کی تو ایسے چش کشاں حقائق سامنے آئے جس کا تعلق بے شمار حکومت کے مخالف تنظیموں سے تھا۔ ابھی یہ تفتیش چل ہی رہی تھی کہ امریکہ نے اس پادری کو مروانے کی سازش کی۔ اس کوشش سے ترکی حکومت کو اس کی سنگینی کا احساس ہوا اور وہ اس کو زیادہ گہرائی سے جانچنا شروع کیا جس سے پتہ چلا کہ اس پادری کا تعلق بلند تحریک سے نکلا بلکہ بے شمار دہشت پسند تحریکوں سے اس کے تعلقات سامنے آئے۔ یہ راز فاش ہوتے ہی امریکہ نے اپنی چال بدل دی اور ترکی حکومت کو کمزور کرنے ترک کرنسی لیرا کی اہمیت گھٹانا شروع کردی تاکہ عوام کا اعتماد ترکی حکومت سے اٹھ جائے۔ ترکی کی باہمت حکومت نے قطر کے امیر شیخ تمیم کی مدد کی اور قطر نے یہ اعلان کردیا جو بھی ملک قطر سے گیس خریدنا چاہتا ہے وہ ان کی قیمت ترک لیرا میں ادا کرے اس فیصلے نے ترک لیرا کو بہت زیادہ استحکام بخشا اور ترکی مستحکم ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے مسلم امیر شہریوں نے جو اسلام کا درد رکھتے تھے بھرپور تعاون کیا اور اپنی تجارت ترکی لیرا میں شروع کردی جس سے غیبی طاقت ملی اور ترکی نے IMF اور World bank کے قرضہ جات اتار دیئے اور مزید قرض لینے سے انکار کرکے امریکی طاقتوں کو للکار نے کی کوشش کی اور اس جرأت سے صیہونی طاغوتی طاقتوں اور امریکی Think Tank کی نیندیں حرام کردی۔ اس کے بعد جب امریکی سازشیں تیز ہوئی تو ترکی نے اس سے اپنا تعلق توڑ دیا۔ہم اس لئے یہاں پر مشکل مثالیں پیش کررہے ہیں کہ دیکھیں کہ کس طرح عوام متحد ہوکر درد مند قلوب کے ساتھ کیسے اپنے ملک کو مشکلات اور سازشوں سے بچاسکتے ہیں۔ افسوس تو ہمیں یہاں اپنے ملک اور اپنے قوم کے پیروؤں پر ہے جو اپنی انا اپنی کرسیوں کی محبت میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اپنی عوام کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ہماری بے حسی کی ادنیٰ مثال حال ہی میں یہ ہیکہ ٹولی مسجد کے متصل مسلم قبرستان کو بھائی لوگوں کی مدد سے شمشان گھاٹ میں تبدیل کردیا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر تمام مسلمان ایک تنظیم کے تحت جڑ جائیں اور صحیح رہبری و رہنمائی کی جائے اور یہ دیکھیں کہ آئے دن قتل، گھریلو تشدد سے کے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے کہیں بچا جاسکتا ہے تو معاشرہ میں ایک صالح تبدیلی آسکتی ہے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ضروری ہیکہ کیسا زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
فکر سخن کو چھوڑ کے فکر چمن کریں