حیدرآباد۔13۔نومبر(سیاست نیوز) ریاستی جامعات میں آئندہ سال سے طلبہ تنظیموں کے انتخابات کا آغاز ہوجائے گا! متحدہ آندھراپردیش میں 1988میں ریاستی جامعات میں اسٹوڈینٹس یونینوں کے انتخابات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور 2014میں ریاست کی تقسیم کے بعد بھی تلنگانہ کی جامعات میں طلبہ یونین کے انتخابات پر پابندی کا سلسلہ جاری رہا اور اس طرح ریاستی جامعات میں گذشتہ 34برسوں سے طلبہ تنظیموں کے انتخابات پر مکمل پابندی عائد ہے جبکہ مرکزی جامعات حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ‘ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ‘ ایفلو وغیرہ میں ہر تعلیمی سال کے دوران طلبہ تنظیموں کے انتخابات منعقد ہوا کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ تلنگانہ کی نئی تعلیمی پالیسی میں ریاستی جامعات میں طلبہ تنظیموں کے انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے اور کہا جار ہاہے کہ طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کی جانب سے اس سلسلہ میں ماہرین کی کمیٹی سے سفارش کرتے ہوئے ریاستی جامعات میں طلبہ یونین کے انتخابات منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کے سلسلہ میں نمائندگیاں کی جا رہی ہیں ۔ذرائع کے مطابق ریاستی حکومت کو تلنگانہ کی نئی تعلیمی پالیسی کے سلسلہ میں سفارشات پیش کرنے والی ماہرین کی کمیٹی نے بھی یہ ذہن بنالیا ہے کہ ریاستی جامعات میں طلبہ تنظیموں کے انتخابات پر عائد کی گئی پابندی کو ختم کردیا جائے تاکہ ریاستی جامعات میں طلبہ تنظیموں کے انتخابات کی راہ ہموار کی جاسکے۔بتایا جاتا ہے کہ ریاستی جامعات کے ذمہ داروں نے بھی کمیٹی میں شامل ماہرین کو اس بات کا مشورہ دیا ہے کہ وہ ریاستی جامعات میں طلبہ یونین کے انتخابات کی راہ ہموار کریں کیونکہ ریاستی جامعات میں منتخبہ طلبہ تنظیم نہ ہونے کے سبب طلبہ کی مختلف تنظیموں سے نمٹنے اور ان کی نمائندگیوں کے مطابق عمل آوری میں یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور کسی ایک تنظیم کے قائدین کی نمائندگی یا مطالبہ کو قبول کئے جانے کی صورت میں یونیورسٹی انتظامیہ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ واضح رہے کہ نظام کالج میں طلبہ تنظیموں کے انتخابات کے دوران 1988 میں طلبہ تنظیم کے قائد دیویندر یادوکے قتل کے بعد سے ریاست میں طلبہ تنظیموں کے انتخابات پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اب منتخبہ طلبہ یونین کی عدم موجودگی میں سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کے قائدین کے علاوہ دیگر طلبہ تنظیموں کی جانب سے ریاستی جامعات بالخصوص کاکتیہ یونیورسٹی اور عثمانیہ یونیورسٹی میں 20تا30 تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں اسی لئے منتخبہ طلبہ تنظیم کے نظام کی بحالی کو یقینی بنائے جانے کے اقدام کئے جانے چاہئے ۔3