’’آئی ایم ایف کی سخت شرائط نہ چاہتے ہوئے قبول کرنا ہوگا‘‘

,

   

سیاسی اور اقتصادی افراتفری کے شکار پاکستان میںزر مبادلہ صرف 3 ارب ڈالر رہ گئے ،IMF سے جلد معاہدہ متوقع :شہباز شریف

اسلام آباد: پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی سخت شرائط قبول کرنا ہوں گی۔گذشتہ دنوں انہوںنے یہ بات اپنے دفتر میں ملکی سلامتی سے متعلق اعلیٰ حکام سے ایک ملاقات کے دوران کہی۔وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا، ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے لیے ناخوشگوار شرائط کو قبول کرنا پڑے گا۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ جلد ہی طے پا جائے گا۔پاکستانی حکام فروری کے اوائل سے پالیسی فریم ورک کے مسائل پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور وہ عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط ہو جانے سے متعلق پر امید ہیں۔ یہ معاہد اقتصادی بحران کے شکار پاکستان کے لیے دیگر دو طرفہ اور کثیر الجہتی قرض دہندگان سے مزید رقوم کی آمد کی راہ بھی ہموار کر دے گا۔ اس معاہدے پر دستخط ہو جانے کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ 2019ء میں طے پانے والے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی قسط بھی جاری کر دے گا۔پاکستانی معیشت اس وقت شدید بدحالی کا شکار ہے اور زر مبادلہ کے ملکی ذخائر صرف تقریباً تین ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جو محض تین ہفتوں تک کی غیر ملکی درآمدات کے لیے بھی بمشکل کافی ہوں گے۔ اس صورتحال میں ڈوبتی ہوئی معیشت کو بیرونی فینانسنگ کی اشد ضرورت ہے۔شہباز شریف نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ ایک ’’دوستانہ ملک‘‘ بھی پاکستان کو تعاون فراہم کرنے سے پہلے معاہدے کی تصدیق کا انتظار کر رہا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق دیرینہ اتحادی ملک چین نے اسی ہفتے پاکستان کے لیے 700 ملین ڈالر کی ری فنانسنگ کا اعلان کر دیا ہے۔واضح رہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر، افراط زر اور شدید مہنگائی نے عام شہریوں کے لیے زندگی انتہائی مشکل بنا دی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کے معاہدے کی وجہ سے پاکستانی حکومت کو تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بہت سی مالی اعانتوں کا بھی خاتمہ کرنا پڑا، جس کا براہ راست اور بہت برا اثر پہلے ہی سے انتہائی تنگ دست عوام پر پڑا ہے۔