آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں پر کنٹرول کیلئے آندھرا پردیش حکومت کا متنازعہ فیصلہ

   

سالانہ کارکردگی رپورٹ کی منظوری کا چیف منسٹر کو اختیار، مرکز کی جانب سے احکامات کی مخالفت

حیدرآباد۔ آندھرا پردیش کی وائی ایس جگن موہن ریڈی حکومت نے آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں پر حکومت کے کنٹرول کیلئے ایک متنازعہ فیصلہ کیا ہے جس کے تحت عہدیداروں کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ کی منظوری کا اختیار چیف منسٹر کے پاس رہے گا جبکہ عام حالات میں یہ اختیار چیف سکریٹری کو حاصل ہوتا ہے۔ جگن موہن ریڈی حکومت نے احکامات جاری کرتے ہوئے آل انڈیا سرویس آفیسرس کے سرویس رولس میں تبدیلی کی ہے جس کے تحت چیف منسٹر کو اختیار دیا گیا کہ وہ عہدیداروں کی سالانہ پرفارمنس اپریزل رپورٹ کو قبول کریں۔ ابھی تک رپورٹ قبول کرنے کا اختیار چیف سکریٹری کو حاصل تھا۔ ملک میں یہ پہلی مرتبہ ہے جبکہ کسی ریاستی حکومت نے رپورٹ قبول کرنے کا اختیار چیف منسٹر کو دیا ہے۔ ریاستی حکومت کے تازہ ترین احکامات کے مطابق چیف سکریٹری عہدیداروں کی سالانہ پرفارمنس رپورٹ کا جائزہ لیں گے جبکہ ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹس کو رپورٹنگ اتھارٹی قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کی قبولیت یا مسترد کرنے کا اختیار چیف منسٹر کو دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جگن موہن ریڈی حکومت کے ان احکامات کی برقراری ممکن نہیں کیونکہ مرکزی حکومت کے ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ کی جانب سے منظوری حاصل نہیں ہوگی۔ اس محکمہ کے تحت آل انڈیا سرویس آفیسرس کی خدمات ہوتی ہیں۔ ریاستی حکومت کے احکامات کو اگر مرکزی ادارہ میں چیلنج کیا جائے تو آندھرا پردیش حکومت کا جی او خطرہ میں پڑسکتا ہے۔ جگن موہن ریڈی حکومت نے 10 اپریل کو جی او آر ٹی 726 جاری کرتے ہوئے یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں کو بہتر کارکردگی کیلئے دباؤ بنانے اور ان میں جوابدہی کا احساس پیدا کرنے کیلئے چیف منسٹر کو یہ اختیارات تفویض کئے گئے۔ چیف منسٹر کے دفتر میں سابق میں خدمات انجام دینے والے ریٹائرڈ آئی اے ایس عہدیدار پربھاکر ریڈی نے کہا کہ ملک میں کسی بھی چیف منسٹر نے آج تک اس طرح کے اختیارات حاصل نہیں کئے ہیں۔ الغرض جگن موہن ریڈی حکومت کا یہ فیصلہ مرکز اور ریاست کے علاوہ جگن موہن ریڈی حکومت اور آل انڈیا سرویس عہدیداروں میں تنازعہ کا سبب بن چکا ہے۔