آئی اے ایس بننے کے خواہاں شہید محمد سلیمان کا قصور کیا تھا ؟

   

بجنور کے ہونہار طالب علم کو پولیس نے قریب سے گولی مار دی ، حفاطت خود اختیاری میں کارروائی کا دعویٰ
حیدرآباد ۔ 24 ۔ دسمبر : ( سیاست ڈاٹ کام ) : وہ ایک آئی اے ایس آفیسر بن کر ملک و ملت کی خدمت کا خواب دیکھ رہا تھا ملک میں امن و آشتی محبت و مروت اتحاد و اخوت اس کا خواب تھا یہی وجہ ہے کہ رات دیر گئے تک وہ اسٹڈی میں مشغول رہتا ۔ بڑی مشکل سے گھر سے باہر نکلتا لیکن پچھلے جمعہ کو اس کے خواب اس وقت چکنا چور ہوگئے جب پولیس نے اسے انتہائی قریبی فاصلے سے گولی مار دی اور اس نے جام شہادت نوش کیا ۔ قارئین یہ کہانی اترپردیش کے ضلع بجنور کے 20 سالہ ہونہار طالب علم محمد سلیمان کی ہے جس کے گھر میں سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ صدمہ کا ماحول ہے وقفہ وقفہ سے اس سناٹے میں شہید محمد سلیمان کی غمزدہ ماں باپ کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں تو کبھی ان کی بہن اور بھائی کے رونے کی آوازیں سناٹے کو چیرتے ہوئے نکل جاتی ہیں ۔ محمد سلیمان نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے گھر سے نکلے تھے انہیں اور ان کے ارکان خاندان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ آئندہ چند گھنٹوں میں اترپردیش پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنیں گے ۔ حالانکہ یو پی پولیس کا دعویٰ ہے کہ این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں پر ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی جب کہ میڈیا کے دیانتدار گوشوں نے اپنی رپورٹس کے ذریعہ یو پی پولیس کے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھدی ہے ۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق اترپردیش میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں جملہ 17 لوگ شہید ہوئے ہیں جن میں کم از کم 14 مہلوکین گولیاں لگنے سے موت کے منہ میں پہنچے ہیں ۔ احتجاجی مظاہرین بالخصوص مسلمانوں کا الزام ہے کہ پولیس نے ظلم و جبر کی تمام حدود پار کردیں ۔ ریاست میں 10 دسمبر سے تاحال 925 لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے صدر اور 16 کارکن بھی شامل ہیں ۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی پولیس نے تشدد کے لیے سیمی اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ بہر حال ہم بات کررہے تھے ہونہار طالب علم محمد سلیمان کی شہادت کے بارے میں اس تعلق سے ان کی بہن کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کے بھائی کو بالکل قریب سے گولی ماری وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے محمد سلیمان کے بھائی کا دعویٰ ہے کہ تھانہ مسجد ایجنسی چوک گئے تھے ۔ پولیس نے انہیں ایک سویٹ شاپ کے قریب سے پکڑ کر لے گئی اور چند گھنٹوں بعد سلیمان کی نعش ایک اور محلہ میں پائی گئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ گولی سلیمان کے پیٹھ میں لگ کر پیٹ میں گھس گئی ۔ اسکرال کے مطابق سلیمان کے والد ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ چیف منسٹر اور وزیراعظم کی کوئی اولاد نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو جینے نہیں دیں گے ۔ وہ سوال کررہے ہیں کہ آخر ہمارے بچوں کو کیوں قتل کیا گیا ؟ ان کا قصور کیا تھا ؟ دوسری جانب پولیس بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ اس نے حفاظت خود اختیاری کے باعث گولی چلائی جس کے نتیجہ میں محمد سلیمان جاں بحق ہوگئے ۔ سلیمان کے جسم میں جو گولی پیوست ہوئی وہ ایک کانسٹبل کے ریوالور سے چلائی گئی تھی ۔ پولیس نے یہ کام کس کے اشارہ پر کیا ہے ۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں لیکن جس کانسٹبل نے بھی محمد سلیمان کو گولی ماردی اسے اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ مظلوم کی آہ ظالموں کے لیے تباہ ثابت ہوتی ہے اور وہ ایسی تباہی کے لپیٹ میں آسکتے ہیں جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے ۔۔