آئی اے ای اے کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے : امریکہ

   

واشنگٹن: امریکہ نے جمعرات کو دھمکی دی ہے کہ اگر تہران اقوام متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی کے تعاون کرنے سے انکار کرکے اس کے کام میں رکاوٹ ڈالتا رہے گا اور ایجنسی کے جانب سے کئی سالوں سے طلب کردہ یورینیم کے نشانات کی وضاحت نہیں دے گا تو اس کے خلاف قرار داد لائی جائے گی۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے 35 ملکی بورڈ آف گورنرز کے سہ ماہی اجلاس میں واشنگٹن نے ایک بار پھر ایران سے ایجنسی کے معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرنے کو کہا، بورڈ آف گورنرز برسوں سے تہران سے غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیم کے ذرات کے ماخذ کے بارے میں وضاحت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ امریکہ نے اب تک ایران کے خلاف قرارداد پیش کرنے سے گریز کیا ہے۔ سفارت کاروں نے واشنگٹن کی جانب سے اس ہچکچاہٹ کی وجہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کو بھی قرار دیا ہے۔ تہران اس طرح کے فیصلوں سے مطمئن نہیں ہوتا اور عام طور پر جواب میں اپنی سرگرمیاں مزید تیز کردیتا ہے۔امریکہ نے کونسل کے اجلاس کیلئے ایک بیان میں کہا ہمیں یقین ہے کہ ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہمیں اور عالمی برادری کو اس بارے میں دوبارہ سوچنا چاہیے کہ ایران کے مسلسل پتھراؤ کا کیا جواب دیا جائے۔ ہم ایران کے موجودہ طرز عمل کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
جرمنی میں خلائی اسٹیشن کا ملبہ گرنے کا اندیشہ
برلن: خلائی ملبے کا وزن تقریبا ًایک بڑی گاڑی کے وزن جتنا ہو سکتا، جس کے جمعہ کے روز زمینی فضا میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ جرمن حکام کا کہنا ہے کہ اس کا کچھ حصہ مغربی ریاست رائن لینڈ یا ملک کے دیگر حصوں میں بھی گر سکتا ہے۔ان اطلاعات کے بعد کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) کا کچھ ملبہ جمعہ کے روز جرمنی کی مغربی ریاست رائن لینڈ پلاٹینیٹ یا ملک کے دیگر حصوں میں بھی گر سکتا ہے، ملک میں اس پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ یہ ملبہ اس بیٹری پیک کا حصہ ہے، جسے تین برس قبل بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے الگ کر دیا گیا تھا۔ اس خلائی ردی کا وزن 2.6 ٹن یا 2600 کوئنٹل یا ایک ایس یو وی گاڑی کے سائز کے برابر ہونے کا امکان ہے۔
جرمن ایرو اسپیس سنٹر (ڈی ایل آر) کے حکام کے مطابق یہ خلائی ملبہ شمالی امریکہ کے اوپر کی فضا بھی میں داخل ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق زمین کی سطح کے قریب آتے ہی اس ملبے کے جل جانے کی توقع ہے۔اس خلائی ملبے کے سمندر میں گرنے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ ڈی ایل آر کا کہنا ہے کہ یہ ملبہ جرمنی کیلئے کوئی ”امکانی” خطرہ نہیں ہے۔