آئی لو محمدؐ بینرز پر ملک گیراحتجاج، سینکڑوں مسلمانوں کیخلاف کارروائی

,

   

21 مقدمات درج‘ 38 افراد گرفتار‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا اعتراض

نئی دہلی25 ستمبر (ایجنسیز) اتر پردیش کے کانپور سے شروع ہونے والی آئی لو محمد بینرز کے خلاف پولیس کی کارروائی اب پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس کے مطابق اب تک 21 مقدمات درج ہو چکے ہیں جن میں ایک ہزار تین سو چوبیس مسلمانوں کو ملزم کیا گیا ہے اور 38 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ کارروائی اْس وقت شروع ہوئی جب میلاد کے جلوس کے دوران کانپور میں پہلا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کے بعد مختلف ریاستوں میں احتجاجات اورآئی لو محمد مہم چلائی گئی اور پولیس نے بڑے پیمانے پر ایف آئی آر درج کیں۔ اتر پردیش اس کریک ڈاؤن کا سب سے بڑا مرکز رہا جہاں 16 ایف آئی آر درج ہوئیں اور ایک ہزار سے زائد افراد کو ملزم بنایا گیا۔ اناؤ میں آٹھ مقدمات درج ہوئے، 85 افراد کو ملزم اور پانچ گرفتاریاں ہوئیں، باغپت میں 150 افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور دو گرفتاریاں ہوئیں، کیسرگنج میں 355 افراد نامزد ہوئے، شاہجہانپور میں 200 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ کوشامبی میں 24 افراد کو ملزم بنایا گیا اور تین کو گرفتار کیا گیا۔ اترکھنڈ کے کاشی پور میں ریاست کے باہر سب سے بڑا مقدمہ درج کیا گیا جس میں 401 افراد کو نامزد کیا گیا اور سات گرفتاریاں ہوئیں، گجرات کے گودھرا میں 88 افراد کو ملزم بنایا گیا اور 17 گرفتاریاں ہوئیں، بڑودہ میں ایک کیس درج ہوااور ایک گرفتاری عمل میں آئی جبکہ مہاراشٹرا کے بائیکلہ میں بھی ایک مقدمہ درج ہوا اور ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کارروائی کو غیر متناسب اور جانبدارانہ قرار دیا ہے۔ اے پی سی آر کے قومی سکریٹری ندیم خان نے کہا کہ حضور ؐ سے محبت کے اظہار پر مقدمات درج کرنا بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے اور پرامن مذہبی اظہار کو کبھی بھی جرم نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ نبی ؐ سے عقیدت کے اظہار کو مجرمانہ بنا دیا گیا ہے اور پرامن مظاہروں کو قانون و انتظامیہ کا مسئلہ قرار دے کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وکلا نے بھی ایف آئی آرز پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ بینرز اور پرامن نعروں کو جرم قرار دینے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ اے پی سی آر کے وکیل محمد عمران خان کے مطابق سینکڑوں افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا غیر مناسب ہے اور اس میں واضح جانبداری جھلکتی ہے۔ اے پی سی آر نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی سپریم کورٹ میں رِٹ پٹیشن یا عوامی مفاد کی عرضداشت (PIL) دائر کرے گا تاکہ اس معاملے میں عدالتی مداخلت کو یقینی بنایا جا سکے۔