آثار قدیمہ میوزیم کی تزئین نو

   

شاہی فرمان ، بیش بہا مخطوطات ، فوٹوز دیگر اہم تاریخی دستاویزات کی نمائش کی تجویز
حیدرآباد :۔ کیا آپ ملک کے ایک قدیم ترین فرمان ( حکمنامہ ) کو دیکھنا چاہتے ہیں ؟ تو پھر تارناکہ میں واقع تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پہنچ جائیے ۔ اس انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اس کے آثار قدیمہ میوزیم کی بڑے پیمانہ پر مرمت اور تزئین نو کی جارہی ہے ۔ ایسے میں وہ تمام لوگ جنہیں تاریخ میں دلچسپی ہے ، بہمنی سلطنت کے فیروز شاہ بہمنی کے فرمان کو دیکھ سکتے ہیں ۔ بہمنی خاندان کی اس خط میں 14 ویں صدی اور اس کے بعد حکومت تھی ۔ یہ فرمان 14 مئی 1406 کی تاریخ کا ہے ۔ جو فارسی زبان میں ہاتھ سے لکھا ہوا ہے اور اس میں مولانا محمد قاضی کو ’ انعام ‘ کے طور پر اراضی منظور کی گئی ۔ وقت کے ساتھ بھورا سازرد ہوجانے والا یہ دستاویز ، جس کے کنارے ناقص ہوگئے ہیں ، اب بھی اس کی تحریر دکھائی دیتی ہے اور اس کا لیٹر ہیڈ ہنوز جوں کا توں ہے ۔ نہ صرف سرکاری احکامات ، بلکہ اس میوزیم میں بیش بہا مخطوطات ، فوٹوز ، نقشے اور دیگر اہم تاریخی دستاویزات اور ریکارڈس موجود ہیں جو وزیٹرس کے لیے ڈسپلے کیے جائیں گے ۔ تارناکہ میں واقع انسٹی ٹیوٹ میں موجود اس میوزیم کی مکمل طور پر تزئین نو کی جارہی ہے ۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں ، طلبہ ریسرچ اسکالرس اور عوام کے لیے اس میوزیم میں 100 تا 120 اہم تاریخی ریکارڈس اور دستاویزات دستیاب ہوں گے ۔ ایک عہدیدار نے کہا کہ ’محکمہ کی جانب سے اس میوزیم کو عصری لائٹنگ اور گیلریز کے ساتھ ترقی دی جارہی ہے ۔ اسے جلد ہی ریسرچ اسکالرس ، طلبہ اور دوسروں کے لیے کھول دیا جائے گا جو ایک نگران کی موجودگی میں ہوگا ‘ ۔ ریاستی محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے 43 ملین سے زائد دستاویزات کے ایک قیمتی ذخیرہ کے تحفظ اور حفاظت کے اقدامات کئے جارہے ہیں جس میں 90 فیصد فارسی اور اردو زبانوں میں ہے ۔ ان میں زائد از 1.5 لاکھ دستاویزات اور ریکارڈس مغلیہ دور کے ہیں جو کسی مخصوص دور کے ریکارڈس کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔ یہ انسٹی ٹیوٹ نظام کے دور حکومت کے تمام ایڈمنسٹریٹیو ریکارڈس کا بھی تحفط کررہا ہے ۔ نہ صرف ملک کے اندر کے بلکہ بیرونی ممالک بشمول امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی ، جاپان ، سنگاپور ، رشیا اور فرانس کے ریسرچ اسکالرس اور مورخین بھی ان کے ریسرچ مقصد کے لیے اس انسٹی ٹیوٹ کو آتے ہیں ۔ کورونا وائرس وباء سے قبل اس انسٹی ٹیوٹ کو تاریخی ریکارڈس کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ریسرچ اسکالرس سے ہر سال 400 تا 500 درخواستیں موصول ہوتی تھیں ۔۔