آخر طیاروں کے حادثات کیوں پیش آرہے ہیں؟

   

اجئے اہلاوت
گجرات کے احمد آباد میں 12 جون کو ایر انڈیا کا لندن جانے والا طیارہ A1171 المناک حادثہ کا شکار ہوا ۔ طیارہ کے اس حادثہ کو ہندوستان میں شہری ہوا بازی کی تاریخ کا دوسرا بدترین حادثہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس سے بدترین حادثہ 1996 میں چارنی دادری میں پیش آیا تھا جہاں دو طیارے دوران پرواز ہی فضاء میں ٹکرا گئے تھے ۔ بہرحال مذکورہ واقعہ نے شہری ہوا بازی (طیاروں) کی سیفٹی اور سیکوریٹی سے متعلق ایک نئی عوامی بحث کو ہوا دی ہے ۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو فضائی سفر حمل و نقل کا ایک محفوظ ذریعہ اور طریقہ ہے لیکن جب ایک طیارہ دوران پرواز حادثہ کا شکار ہوتا ہے تو اس میں بے شمار قیمتی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے، جس مقام پر حادثہ پیش آیا وہاں کے دل دہلا دینے والے مناظر نے فصائی سفر اور طیاروں سے متعلق عوامی اعتماد کو بہت زیادہ ٹھیس پہنچایا ہے اور اس حادثہ نے یہ سوال پیدا کیا ہے کہ آخر طیارہ ہنوز کیوں حادثات کا شکار ہورہے ہیں ؟
اگر دیکھا جائے تو سڑک حادثات ، ریل حادثات ، کشتی کے حادثات کی بہ نسبت شہری ہوا بازی کے شعبہ میں (فضائی حادثات) حادثات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں ۔ اس ضمن میں بناء کسی جھجک کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ 11 ملین پروازوں میں بمشکل ایک حادثہ پیش آتاہے ، انٹرنیشنل سیول ایوی ایشن آرگنائزیشن (ICAO) کی ایک 2024 سیفٹی رپورٹ کے مطابق سال 2023 پچھلے پانچ برسوں میں شہری ہوا بازی کا محفوظ ترین سال رہا ، اس برس طیاروں کے عالمی حادثات جو 2022 میں 2.05 فی ملین تھی گر کر 1.87 فی ملین ہوگئی اور ہلاکتوں کی شرح فی ارب مسافرین 17 رہی۔ اس سے پہلے کے سال میں وہ شرح 50 تھی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ عالمی سطح پر فصائی مسافرین کی تعداد سال 2023 میں 4.2 ارب تک پہنچ گئی۔ 35 ملین سے زائد پروازوں کے ساتھ صرف ایک مہلک حادثہ پیش آیا۔ ہم بات سال 2023 کی کر رہے ہیں) اس حادثہ میں جو Turboprop طیارہ کو پیش آیا تھا ۔ 72 مسافرین اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے تھے ۔ انٹرنیشنل ایر ٹرانپسورٹ اسوسی ایشن IATA نے اپنی 2024 کی رپورٹ میں اس رجحان کی تصدیق کی اور 12 حادثات کی ریکارڈنگ کی بنیاد پر بتایا کہ کوئی بھی طیارہ ایسا نہیں تھا جو قابل مرمت نہ رہا ہو اور نہ ہی حادثات زیادہ مہلک تھے ۔ اس کے باوجود جب کبھی طیارہ حادثہ کا شکار ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ۔ ICAO ڈیٹا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ 80 فیصد فضائی حادثات انسانی غلطیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جبکہ 15 فیصد حادثات تکنیکی وجوہات کے نتیجہ میں واقع ہوتے ہیں ۔ بظاہر وہ زیادہ پیچھیدہ دکھائی دیتے لیکن حقیقت میں پیچیدہ ہوتے ہیں، تکنیکی خامیاں / ناکامیاں جیسے انجن میں خرابی کا پیدا ہونا یا طیارہ کے نظام میں گڑبڑ بہت کم عام چیزیں ہیں اور یہاں تک کہ جب طیارہ مذکورہ خرابی یا تکنیکی مسائل سے متاثر ہوتا ہے تب طیارہ کے نظام میں موجود دوسری خصوصیات طیارہ کو تباہی سے بچا لیتے ہیں ، اس میں انسانی عقلمندی ، دانشمندانہ فیصلہ اور انسانی چوکسی کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ طیاروں کے حادثات کی دیگر وجوہات یا اہم پہلوؤں میں خراب موسمی حالات جیسے مطلع ابر آلود ہونے یاکہر چھا جانے سے کوئی بھی چیز صاف دکھائی نہیں دیتی ۔ اس کے علاوہ رن ویز کا گیلا ہوجانا یعنی اس پر پانی کا ٹھہر جانا ، طیارہ میں ہنگامہ یا پرندوں کا طیاروں سے ٹکرا جانا بھی شامل ہیں اور یہ پہلو ایسے ہیں جو موجودہ مسائل میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں لیکن ان پہلوؤں کے نتیجہ میں طیارے کبھی کبھار ہی حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔
انسانی غلطی سب سے بڑا پہلو ہے جو فضائی حادثات کا باعث بنتا ہے ۔ اس میں غلط فہمی ، پیام کی ترسیل میں نقائص ، دباؤ کی صورت میں درست فیصلہ کرنے میں ناکامی ، جیسے پہلو شامل ہیں۔ ICAO انسانی پہلو کی تشریح کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ یہ دراصل انسانی صلاحیتوں اس کے حدود آلات طریقہ کار اور ماحولیات (موسمی حالات) کو سمجھنے سے متعلق انسانی قابلیت کا مطالعہ ہے ۔ جب ہم ایر انڈیا کی پرواز A1171 کے حادثہ کی بات کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ شہری ہوا بازی کے ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر لینڈنگ گیر ٹیک آف کے فوری بعد پائلٹس نے کیوں نہیں اٹھایا جبکہ ٹیک آف کے فوری بعد لینڈنگ گیر کا “Retraced” کیا جانا معیار کے عین مطابق طریقہ کار ہے ۔ واضح رہے کہ پائلٹ ٹریننگ دیکھا جائے تو حقیقت میں شہری ہوا بازی کے شعبہ میں خاص طور پر طیارہ کی سیفٹی کی بنیاد ہے لیکن اس میں بھی کئی خامیاں اور خلیج موجود ہے ۔ اس ضمن میں آپ کے سامنے 1989 کو برطانیہ کے کیگورتھ کے قریب پیش آئے برٹش مڈلینڈ کراش کی مثال پیش کرتے ہیں ۔ اس حادثہ میں 47 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس حادثہ کی جزوی ذمہ داری پائلٹس پر عائد کی گئی جو طیارہ کی ایک نئی قسم سے کما حقہ واقف نہیں تھے ۔ اس طرح سال 2018 اور 2019 میں بوئنگ 737 میاکس کے حادثات (جس میں 346 مسافرین ہلاک ہوئے تھے) نے MCAS خودکار نظام پر تربیت میں پائی جانے والی خامیوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ۔ غلطیاں اگرچہ تجربہ کار پائلٹس سے بھی ہوتی ہیں لیکن پائلٹس کو وقفہ وقفہ سے عصری تربیت ، کرئیو ریسورس مینجمنٹ (CRM) اور خود کار نظام چلانے کے قابل بنانے سے شہری ہوا بازی کے شعبہ میں مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ورنہ تجربہ کار پائلٹس بھی غلطیوں کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ اس قسم کے حادثات سے بچاؤ کا صرف ایک تریاق حقیقت پسندانہ اور ہنگامی حالات سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کی بار بار تربیت کی فراہمی میں ہے ورنہ صرف پائلٹس کا تجربہ ہی طیارہ کو حادثہ سے نہیں بچا سکتا ۔ طیاروںکو حادثات سے بچانے کیلئے ارکان عملہ کو تھکاوٹ سے بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ اکثر طویل فاصلہ کا سفر ، بے قاعدہ شیڈول اور مسلسل کام سے ذہنی تھکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے ۔ اس وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ فضائی حادثات میں سے 20 فیصدحادثات ارکان عملہ کی تھکاوٹ کے باعث ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2009 میں کولگا ایر فلائیٹ 3407 حادثہ کا شکار ہوئی (اس میں 50 اموات ہوئیں تھیں) اور وجہ یہ تھی کہ تھکے ماندہ پائلٹس اسٹال وارننگ کا جواب دینے میں ناکام ہوگئے تھے جبکہ شہری ہوا بازی کے ریگولیٹرس جیسے امریکہ کے FAA اور ہندوستان کے DGCA نے اوقات کار کے حدود مقرر کر رکھے ہیں۔ اب تو مستقبل میں بناء ڈرائیور کی کار بناء پائلٹ کے ڈرونس کی طرح مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے بنا پائلٹس کے طیارے بھی آسمانوں میں پرواز کرسکتے ہیں ۔ ان کے بارے میں ابھی سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا وہ حادثات سے پاک ہوں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی پائلٹس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔