نئی دہلی ۔ 5 اگسٹ ۔ ( ایجنسیز ) ملک بھر میں انشورنس سیکٹر میں فراڈ کے نئے طریقے سامنے آ رہے ہیں اور اس بار نشانہ بنا ہے آدھار کارڈ۔اسے پن کوڈز کی چالاکی سے چوری کرنے والے فراڈی اب آدھار سے منسلک شناختی عمل کو استعمال کر کے انشورنس کمپنیوں کو چونا لگا رہے ہیں۔یوپی پولیس نے جولائی کے آخر تک کئی انشورنس کمپنیوں کو نوٹس بھیجے ہیں جن میں دعووں سے متعلق ٹیموں اور دیگر عملے کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ یہ تمام کیسز جعلی دستاویزات اور بینکوں و انشورنس کمپنیوں کے درمیان مربوط سازشوں سے متعلق ہیں۔
ذرائع کے مطابق انشورنس سیکٹر میں ہونے والا فراڈ کل کلیمز کا تقریباً 10 سے 15 فیصد بنتا ہے۔انشورنس انفارمیشن بیورو (IIB) ایسے فراڈ پر قابو پانے کے لیے‘ریڈ فلیگ’ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہے۔انوکرتی شرما، ایڈیشنل ایس پی، سنبھل نے کہا:’’آدھار اب فراڈ کی زنجیر کی نئی کمزور کڑی بن چکا ہے۔ جعلساز جعلی آدھار کارڈز بنا کر انشورنس پالیسیاں حاصل کر رہے ہیں اور جھوٹے کلیمز دائر کرتے ہیں۔’’یوپی پولیس کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد صرف ہیلتھ یا لائف انشورنس تک محدود نہیں، بلکہ آٹو انشورنس میں بھی بڑے پیمانے پر فراڈ کر رہے ہیں۔نیوا بوپا ہیلتھ انشورنس کے ایم ڈی اور سی ای او کرشنن رامچندرن نے کہا:’’ہمیں یوپی سے منسلک 2-3 فراڈ کیسز موصول ہوئے ہیں، ہماری ٹیم تحقیقات میں مصروف ہے۔ ان معاملات میں جعلی دستاویزات اور منظم گروہ شامل ہیں۔’’متعدد لائف اور جنرل انشورنس کمپنیوں نے بتایا ہے کہ آدھار سے منسلک فون نمبر اور ای میل آئی ڈی اکثر اصل پالیسی ہولڈر کی معلومات سے میل نہیں کھاتے، جس کی وجہ سے یہ فراڈ تب تک پکڑے نہیں جاتے جب تک کلیم دائر نہ ہو یا رقم نکالی نہ جائے۔کئی کیسز میں پولیس نے پایا کہ یہ گروہ دیہی علاقوں یا اسپتالوں میں موجود غریب و کمزور افراد سے رابطہ کرتے ہیں، آدھار تفصیلات لیتے ہیں، بلیک لسٹ پن کوڈز کو بائی پاس کرنے کے لیے پتہ بدل دیتے ہیں، اور پھر چھوٹے فنانس بینکوں میں ان کے نام پر اکاو?نٹس کھول کر لائف انشورنس پالیسیز خرید لیتے ہیں، جن کی قیمت 20 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہوتی ہے۔IIB نے مختلف ماڈیولز اور پلیٹ فارمز کے ذریعے فراڈ روکنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ایک مثال کے طور پر، ایک ٹول جس میں 144 ملین ریکارڈز موجود تھے، نے پچھلے پانچ سالوں میں 300,000 مشتبہ لائف انشورنس فراڈز کی نشاندہی کی، جن کی مجموعی رقم ?1.73 لاکھ کروڑ تھی۔