رام پنیانی
این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کیخلاف زبردست احتجاج جاری ہیں۔ ساتھ ہی ہم دس سالہ مردم شماری 2021ء کا عمل شروع کررہے ہیں۔ آر ایس ایس پہلے ہی این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کو درست اور ضروری بتانے کی مہم شروع کرچکا ہے۔ نیز آر ایس ایس یہ بھی چاہتا ہے کہ آدیواسی (قدیم قبائلی) لوگ خود کو ’دیگر‘ والے کالم میں شامل کرنے کے بجائے ہندو بتائیں۔ آر ایس ایس ترجمان کے مطابق 2011ء سنسیس میں کئی آدیواسی گروپوں نے ’دیگر‘ والا کالم اختیار کیا جس کی وجہ سے ہندوؤں کی آبادی 0.7 فیصد کمی کے ساتھ 79.8% درج ہوئی۔ ہندو قوم پرست آرگنائزیشن نے اس کا نوٹ لیا اور اب یقینی بنانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے کہ اِس مرتبہ مردم شماری میں آدیواسی لوگ ہندوؤں کے کالم کو منتخب کریں۔ اس طرح آر ایس ایس نے اصطلاح ’ہندو‘ کی توضیح میں کافی ہوشیاری سے کام لینے کوشاں ہے۔ سب سے پہلے ساورکر نے وضع کیا کہ وہ تمام جو سندھ کے مشرق کی سرزمین کو اپنی ارضِ مقدس اور پدر وطن سمجھیں، سب ہندو ہیں۔ اس طرح مسلمانوں اور عیسائیوں کو خارج رکھا گیا اور تمام دیگر کو ہندو صف کی حدود میں شامل کرلیا۔
1980ء کے دہے سے وہ انتخابی مجبوریوں کے سبب ایسا باور کرنے کوشاں رہے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام افراد ہندو ہیں۔ مرلی منوہر جوشی نے بیان دیا تھا کہ مسلمان ’احمدیہ ہندو‘ اور عیسائی ’کرسٹی ہندو‘ ہیں۔ حال میں تنازع چھڑگیا جب انھوں نے مکرر بیان کیا کہ سکھ برادری کا کوئی علحدہ مذہب نہیں بلکہ وہ ہندومت کا فرقہ ہیں۔ کئی سکھ تنظیموں نے احتجاج کیا اور کہا کہ سکھ مت بجائے خود علحدہ مذہب ہے اور کہن سنگھ نبھا کی کتاب ’’ہم ہندو نہیں‘‘ کا حوالہ دیا۔
جہاں تک آدیواسیوں کا معاملہ ہے، جو کچھ ہندو نیشنلسٹ آر ایس ایس کی جانب سے منصوبہ بنایا جارہا ہے، اُس کے برعکس کئی آدیواسی گروپ گزشتہ دو سال سے بالکلیہ مختلف مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک کالم ایسا ہونا چاہئے جہاں وہ اپنی آدیواسی شناخت کو منتخب کرسکیں۔ آدیواسی گروپوں میں سرگرمی سے مہمات چل رہی ہیں کہ مردم شماری میں اپنی آدیواسی شناخت کو قائم رکھیں۔ اُن کے مطابق آزاد ہندوستان کے پہلے سنسیس میں ایک کالم ’Aborigines‘ (قدیم باشندے) سے متعلق تھا، جسے بعد میں حذف کردیا گیا اور وہ خود کو دیگر مذاہب کے کالم میں شامل کرنے پرمجبور ہوئے۔ 1951ء کے بعد ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، جین اور بودھ کے علاوہ ’دیگر‘ والا کالم بھی تھا جسے 2011ء میں ہٹا دیا گیا۔ حتیٰ کہ برطانوی دَور میں اگر آپ اُس مدت کے مردم شماری (1871 سے 1931ء) پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ قبائلیوں کیلئے ’قدیم باشندے‘ کی حیثیت سے انتخاب کی گنجائش تھی۔ آدیواسیوں میں لگ بھگ 83 مذہبی عقیدوں پر عمل ہوتا ہے۔ ان میں چند نمایاں سَرنا، گوندی، پونیم، آدی اور کویا ہیں۔ ان میں مشترک بات یہ ہے کہ وہ بھوت پریت کو مانتے ہیں، فطرت اور آباواجداد کی روحوں کی پوجا کرتے ہیں ، ان میں کوئی مذہبی طبقہ یا مقدس کتبات نہیںہیں، اور نہ ہی تمام دیوتاؤں کے وسیع تر مندر کا کوئی تصور ہے۔
آر ایس ایس ہندو راشٹر کے اپنے سیاسی ایجنڈہ کے مطابق انھیں ’وَنواسی‘ قرار دیتا ہے۔ وہ مذہبی دعویٰ کرتے ہیں کہ آدیواسی ہندو سوسائٹی کا حصہ رہے ہیں جن کو جنگلات کی راہ لینے پر مجبور ہونا پڑا تاکہ مسلم حملہ آوروں کی جانب سے جبری تبدیلی ٔ مذہب سے بچ سکیں۔ یہ دعویٰ آبادی پر مبنی جینیات کے تحقیقاتی جائزے سے اخذ کردہ نتیجے کے مغائر ہے۔ ہندو نیشنلسٹ دعویٰ کرتا ہے کہ آریائی لوگ اِس دیش کے اصل باشندے ہیں جہاں سے وہ دنیا کے دیگر حصوں میں پھیل گئے۔
ٹونی جوزف کی کتاب Early Indians سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نظریۂ نسل سے قطع نظر ہم تمام ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ ہماری سرزمین پر اولین باشندے وہ رہے جو جنوبی ایشیا سے زائد از ساٹھ ہزار سال قبل آئے تھے۔ ہند۔ آریائی نسل کے لوگ یہاں تقریباً تین ہزار سال قبل آئے اور انھوں نے قدیم باشندوں کو جنگلات اور پہاڑیوں میں اپنے مسکن بنانے پر مجبور کیا، اور یہی ہندوستان کی آدیواسی کمیونٹی ہے۔ تمام قوم پرستوں کی مانند جو اپنی قوم پرستی کو اپنے مذہب سے جوڑے رکھتے ہیں، ہندو نیشنلسٹ عناصر اِس دھرتی کے سب سے قدیم باشندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور ماضی کے بارے میں اُن کی باتیں اسی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کی گئی ہیں۔ آر ایس ایس شروعات میں لفظ ’آدیواسی‘ کا استعمال نہیں کرتا تھا، بلکہ انھیں ’ونواسی‘ کہتا تھا۔ اب اپنے ایجنڈہ کے مطابق وہ انھیں ہندو صف کا حصہ بنانا چاہتا ہے، حالانکہ خود آدیواسیوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ اُن کے اعتقاد اور عمل کسی بھی اعتبار سے ہندومت سے نہایت پرے ہیں۔
1980ء کے دہے سے اپنی سیاسی رسائی کو بڑھانے کیلئے خاص طور پر آدیواسیوں کے علاقوں میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ آر ایس ایس پریوار کے تحت ’ونواسی کلیان آشرم‘ بہت پہلے تشکیل دیا گیا تھا، مگر 1980ء کے دہے میں اُن کے کام میں تیزی آئی جب آدیواسی علاقوں میں مزید پرچارکوں کو بھیجا گیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ گجرات میں دانگس اور قریبی علاقہ، مدھیہ پردیش میں سوامی اسیمانند، آسارام باپو کے جھابوا میں مرکوز حامیوں اور اڈیشہ میں سوامی لکشمانند سرگرم رہے ہیں۔ انھوں نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے کرسچن مشینریز کو آدیواسیوں کو ہندوانے کیلئے رکاوٹ پایا۔ عیسائی مشینریز کے خلاف اُن کا پروپگنڈہ پیسٹر گراہم اسٹینس کے گھناؤنے قتل کا موجب بنا۔ اسی پروپگنڈے کے نتیجے میں اینٹی کرسچن تشدد مختلف شکلوں میں رونما ہوا، جس میں سب سے ہولناک واقعہ 2008ء کا کندھامل تشدد ہے۔
آدیواسیوں کو ہندومت کی صف میں ثقافتی طور پر شامل کرلینے کی خاطر آر ایس ایس والوں نے مذہبی اجتماعات، کمبھ میلوں کا سلسلہ شروع کیا۔ دانگس اور آدیواسیوں کے غلبہ والے کئی دیگر علاقوں میں شبری کمبھ نے خوف کا ماحول پیدا کیا۔ آدیواسیوں کو اس کا حصہ بننے کیلئے کہا گیا، زعفرانی پرچم تقسیم کئے گئے اور ان کو گھروں میں لگانے پر زور دیا گیا۔ ان علاقوں میں دو نمایاں مذہبی شناختوں کو مقبول بنایا گیا، ایک شبری اور دیگر ہنومان۔ اس کے علاوہ ایکل ودیالیا کی جانب سے ان علاقوں کی تاریخ کو آر ایس ایس کے زاویہ سے پھیلایا جانے لگا۔ اس سارے معاملے میں دیگر پہلو یہ ہے کہ آدیواسی لوگ معدنیات سے مالامال علاقوں میں رہ رہے ہیں، جسے بی جے پی کی حمایتی ’کارپوریٹ ورلڈ‘ قبضہ میں لینا چاہتی ہے۔
دنیا بھر میں قدیم باشندوں کا یکساں معاملہ ہے۔ وہ بھوت پریت کو مانتے ہیں اور اسی کے مطابق کلچر پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ بلاشبہ کئی آدیواسیوں نے اپنی مرضی سے دیگر مذاہب کو اختیار کرلیا ہے، لیکن آخر میں ذاتی نقطہ نظر ہی اہمیت رکھتا ہے۔ چیف منسٹر جھارکھنڈ ہیمنت سورین نے نشاندہی کی کہ ’’آدیواسی لوگ ہندو نہیں ہیں‘‘۔ اسے ملحوظ رکھتے ہوئے ’قدیم باشندوں‘ کا کالم ہمارے سنسیس فارمس میں جگہ پانا چاہئے۔
[email protected]