حیدر عباس
روس ۔ ترکی جاری جنگ کا سب سے خطرناک موڑ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری جنگ ہے جہاں روس نے آرمینیا کی اور ترکی نے آذربائیجان کی تائید کی ہے۔ اس کی وجہ سے صدر روس ولاد میر پوٹن نے دونوں متحارب ممالک کے وزرائے خارجہ کو ماسکو طلب کیا اور دونوں نے فیصلہ کیا کہ صلح کا اعلان کیا جائے، جیسا کہ انڈین ایکسپریس نے 10 اکتوبر کو خبر دی ہے۔ 14 دن کی جنگ میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوگئے۔ آخر کار 10 گھنٹے طویل بات چیت کے بعد اختتام پذیر ہوئی اور جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ دونوں ممالک کبھی سابق سویت یونین کا 1991 تک ایک حصہ تھے اور دونوں نے 1991-94 کے بعد باہم جنگ کا فیصلہ کیا۔
نوگورنو کاراباغ کی جنگ کے علاقہ کی تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی اب ایک فیصلہ کن فاتح قرار پایا ہے کیونکہ اس نے آذربائیجان کی پوری تائید کی ہے اور آرمینیا کو حالانکہ یوروپین یونین کی تائید حاصل تھی اور روس بھی اس کی تائید کررہا تھا لیکن روس کی تائید سے اس کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اور امریکہ میدان میں آگیا۔ نومبر 2020 کے انتخابات کے بعد اس کی تائید کے امکانات مدھم ہوگئے۔ 10 اکتوبر 2020 کو نیوز AZ2 کی اطلاع کے بموجب آرمینیا کے S-300 نظام کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ اس کے بعد روس نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔
تاہم درحقیقت صدر ترکی رجب طیب اردغان نے اپنے پتے پھینکے جبکہ ایران ابتداء ہی سے غیر جانبدار رہا تھا کیونکہ ایران میں تنازعہ جاری تھا اور وہ روس کی تخلیق کرنا چاہتا تھا لیکن تقریباً دو کروڑ آذربائیجان کے ترک جو ایران میں مقیم ہیں ایران کو روس کی تائید پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کا مطلب آرمینیا کی تائید ہے چنانچہ اس سے پہلے کہ حالات بے قابو ہو جاتے پوٹن، اردغان اور ایران میں صدر روحانی پر دباؤ ڈالا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ تنازعہ میں اہم طاقتوں کے ساتھ ہو جائیں گے۔ آخر کار یہ جنگ شدت اختیار کرگئی جبکہ اس کا مطلب مخالف امریکی افواج جنگ تھا جو آپس میں خانہ جنگی کا سامنا کررہی تھی۔ ترکی اور روس نے بھی تاخیر سے فیصلہ کیا کہ مشترکہ فوجی مشقوں میں بحیرہ روم میں شرکت کریں گے۔ روزنامہ ہندو کی 4 ستمبر 2020 کو شائع ہونے والی خبر کے بموجب دونوں فریقین قبرص میں ایک دوسرے کے روبرو ہیں۔ چنانچہ یوروپی حلیف ممالک نے یونان کو خاموش کردیا۔ خاص طور پر فرانس اور متحدہ عرب امارات میں ترکی کے خلاف اپنے محاذ کے ذریعہ اس کے مخالف تھے۔
8 اکتوبر کو ترکی نے فیصلہ کیا کہ شکست خوردہ یونان کے F-16 لڑاکا طیاروں پر تحدیدات کی وجہ سے ترکی کے خلاف دباؤ ڈالا جائے۔ مبینہ طور پر یوپی آئی ڈاٹ کام 4 اور ترکی کے ساتھ تصادم کے جاری رہتے ہوئے یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ ترکی، امریکی F-16 کو بھی مار گرائے گا اور اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملے گی۔ یہ ایک اشارہ ہوگا جس کے ذریعہ مختلف سوپر پاورس کی حرکات جو یوروپی علاقہ میں جاری ہیں انتباہ ہوگا۔ کوئی حیرت نہیں کہ ان آوازوں میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے کہ ترکی کو ناٹو سے خارج کردیا جائے جو اس کا 1952 سے رکن بنا ہوا ہے۔ روس نے ابتر ہوتی ہوئی صورتحال کا اندازہ لگایا اور اس میں مزید شدت پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جبکہ آذربائیجان کو ترکی کی تائید جاری تھی۔ یہ صورتحال آرمینیا کی تائید میں تھی اور روس نے بھی تجزیہ کیا کہ ایران کی تائید بھی بطور دیرینہ حلیف ملک ختم ہو جائے گی کیونکہ ایران آذربائیجان کی ترک نژاد آبادی کے دباؤ میں تھا اور اردغان نے دریں اثناء مالی تائید کے ذریعہ 7 اکتوبر 2020 کو قطر کا پانچواں دورہ کیا۔ الجزیرہ کے بموجب اسے تیقن دیا گیا کہ قطر، ترکی کو مالی امداد سرگرم طور پر فراہم کرے گا جیسا کہ وہ ماضی میں بھی کرچکا ہے۔ ترکی قطر کو سابق ترکی سامراج یا خلافت کا ایک دیرینہ حامی سمجھتا ہے جو عالمی جنگ اول کے بعد ختم ہو گئی تھی۔
روس کی ثالثی سے جنگ بندی میں عرب ممالک اب اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کررہے ہیں۔ انہوں نے اردغان کی ابھرتی ہوئی شخصیت سے اپنے لئے خطرہ محسوس کیا کیونکہ اردغان آذربائیجان کی تائید کررہے تھے اور اس کے باوجود کہ وہ روس کا بحیرہ روم میں حلیف ملک تھا اس سے صف آرائی میں مصروف تھے اور امریکہ جس کے ساتھ ترکی مخالفین کی صف میں شامل ہے مبینہ طور پر یہ اس صدی کا سب سے بڑا معاہدہ تھا اس کے ساتھ ہی ترکی نے فلسطینیوں کے لئے مغربی کنارہ کے الحاق کے منصوبہ کی تائید شروع کردی جو درحقیقت اسرائیل کی تائید سے وجود میں آیا ہے۔ برطانیہ اور دیگر نوآبادیاتی طاقتیں 1948 میں مغربی کنارہ کو قائم کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اسرائیل کے آذربائیجان کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ جدید ترین تنازعہ میں غیر جانبدار کردار ادا کرے گا۔ روس کی زیر سرپرستی دشمنیوں کا خاتمہ یقینا آذربائیجان کی ایک کامیابی سمجھا جاسکتا ہے یا پھر یہ ترکی کی کامیابی کی توسیع ہے۔ ترکی اب واضح طور پر اپنی قیادت کے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہے اور اس نے اس جدوجہد میں پاکستان کی بھی تائید حاصل کی ہے کیونکہ اس نے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے جذبات و احساسات کی تائید کی ہے۔ پاکستان کی تائید حاصل کرنے سے ہندوستان کو ایک غلط پیغام پہنچ رہا ہے۔
تمام عرب ممالک اب ترکی کے خلاف متحد ہیں جو پاکستان، ملائیشیا، ایران کے 203 کے ساتھ اتحاد کے ذریعہ ایک نیا بلاگ قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ 203 کی تائید سے ہندوستان کے ساتھ عرب ممالک اسرائیل، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ ایک بلاگ بنا رہے ہیں۔ چنانچہ پاکستان سمجھا جاتا ہے کہ آذربائیجان کی تائید کرے گا، خاص طور پر اس لئے کیونکہ آذربائیجان نے پاکستان کو خام تیل کی سربراہی کا پیشکش کیا ہے، جبکہ مملکت سعودی عرب نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے 14 اگست 2020 تک توسیع دینے کے بعد خام تیل کی مزید سربراہی بند کردی جائے۔ چین پہلے ہی روس کو مجبور کرچکا ہے کہ S-400 ایران کو فروخت کرے۔ اس نے یوریشین ٹائمز کی 9 اکتوبر 2020 کی اشاعت میں غالباً پاکستان کے عنقریب ایسے طیاروں کی خریداری کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ چین، پاکستان کو اپنا ایک قریبی ساتھی سمجھتا ہے۔ جبکہ ہندوستان 2027 تک S-400 حاصل کرے گا۔ روس کو اس کے لئے ایک مشترکہ قانون سازی کرنی پڑے گی اور کسی بھی خطرناک صورتحال کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے تیزرفتار اقدامات کرنے پڑیں گے تاکہ اس کی سیاست میں خلل پیدا نہ ہوسکے۔ یہ معلوم ہو جانے کے بعد جو عام ریڈیو ایم کی 7 اکتوبر 2020 کی نشریات سے معلوم ہوچکا ہے کہ افغان سورما گلبدین حکمت یار افغان سپاہیوں کو آذربائیجان روانہ کریں گے اور یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ دوسری سراغ رساں ادارہ کے سربراہ نے اشارہ دیا ہے کہ آذربائیجان اسلامی عسکریت پسندوں کا روس میں داخلہ کے لئے مقام آغاز بن جائے گا۔ نیوز 18 ڈاٹ کام کی 7 اکتوبر 2020 کی اطلاع کے بموجب روسی یقینا یہ نہیں چاہتے کہ دوبارہ دہشت گرد اس میں داخل ہو جائیں۔
لیکن یہ پیغام بھی ترکی کی اسلام پسند جنگجووں کے نام اپیل سے ملتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے بموجب دہشت گرد آرمینیا ۔ آذربائیجان جنگ میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ دریں اثناء دونوں ممالک ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کررہے ہیں۔ رائٹرس کی 11 اکتوبر 2020 کی خبر کے بموجب یہ بات قابل فہم ہے کیونکہ 1994 میں جنگ کے شعلے ہنوز بھڑک رہے ہیں۔ اس جنگ میں تقریباً 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن اس سے بآسانی جنگ بندی پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔