آرٹیکل 370 منسوخ ۔ اب جموں و کشمیر اور لداخ دو مرکزی علاقے

,

   

l راجیہ سبھا میں امیت شاہ کے اعلان پر ایوان کے اندرون و بیرون ہنگامہ
l جموںو کشمیر میں مقننہ ہوگا ، لداخ میں نہیں
l سرکاری اعلامیہ پر صدرجمہوریہ کووند کے دستخط

نئی دہلی ۔ 5 اگسٹ ۔(سیاست ڈاٹ کام) حکومت نے آج آرٹیکل 370 منسوخ کردیا جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کر رکھا تھا ، اور تجویز پیش کی کہ ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے دو مرکزی زیرانتظام علاقے جموں و کشمیر اور لداخ بنائے جائیں ۔ یہ کافی جرأت مندانہ فیصلہ ہے جو 72 سالہ نہایت پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش ہے جس سے قوم راست یا بالواسطہ متاثر ہوتی رہی ہے ۔ مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں اس فیصلے کا اعلان کیا جس سے بی جے پی کے انتخابی وعدے کی تکمیل ہوگئی ۔ جہاں اس فیصلے نے حکومتی حامیوں اور دیگر گوشوں میں خوشی کی لہر پیدا کردی ، وہیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جو جموںو کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اُن کی طرف سے شدید غم و غصہ اور احتجاج کا اظہار کیا گیا ۔ سیاسی جرأت مندی میں عدیم النظیر اس فیصلے نے ریاست کے خصوصی موقف کو ختم کردیا اور اب یہ سرحدی ریاست ملک کی کوئی بھی دیگر ریاست کی مانند ہوگئی ہے، جس کا مقصد کئی دہے قدیم علحدگی پسند تحریک کو ختم کرنا ہے ۔ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں قرارداد پیش کی کہ آرٹیکل 370 جو جموںو کشمیر کو اپنا دستور رکھنے کی اجازت دیتا ہے ، وہ اب قابل اطلاق نہیں رہے گا ۔ ایسے اندیشے بھی ہیں کہ حکومت کے فیصلے سے آبادیاتی خاکہ تبدیل ہوجائے گا ۔ دریں اثناء راجیہ سبھا میں ندائی ووٹ کے ذریعہ حکومت کی قراردد منظور کرلی گئی ۔ پی ڈی پی سربراہ اور سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے اپنے اندیشوں کا ٹوئٹ کے ذریعہ اظہار کیا ۔ انھوں نے کہاکہ حکومت ہند کا ارادہ صاف طورپر ناپاک ہے۔ وہ ہندوستان میں واحد مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیاتی نوعیت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، مسلمانوں کو اس حد تک بے اختیار بنادینا چاہتے ہیں کہ وہ خود اپنی ریاست میں دوسرے درجہ کے شہری بن جائیں ۔ وزیر داخلہ کی پیش کردہ قرارداد کے مطابق آرٹیکل 370 پیر 5 اگسٹ سے ہی منسوخ سمجھا جائے گا ۔ پارلیمنٹ کی سفارش پر صدرجمہوریہ نے بخوشی اعلان کیا کہ 5 اگسٹ 2019 ء سے آرٹیکل 370 کے تمام فقرے غیرکارکرد سمجھے جائیں گے ۔ امیت شاہ نے ریاست جموںو کشمیر کو دو مرکزی علاقوں جموں و کشمیر ڈیویژن اور لداخ میں تقسیم کرنے کی تجویز والا بل بھی پیش کیا ۔ امیت شاہ نے جموں وکشمیر تنظیم جدید بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی علاقہ لداخ میں چندی گڑھ کی مانند کوئی مقننہ نہیں ہوگا۔ دیگر مرکزی علاقہ جموں و کشمیر میں دہلی اور پوڈوچیری کی طرح مقننہ رہے گا ۔ یہ اعلان جموںو کشمیر میں غیریقینی کیفیت کے کئی دنوں کا منطقی انجام ثابت ہوا ہے جس کے ساتھ ہی ایوان میں اور اس کے باہر زبردست ہنگامہ ہوا ۔ محبوبہ مفتی نے کہاکہ ہندوستان نے کشمیر کو اپنے وعدوں کی تکمیل کے معاملے میں مایوس کردیا ہے ۔ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے حکومت کا یکطرفہ فیصلہ غیرقانونی اور غیردستوری ہے ۔ نیشنل کانفرنس لیڈر عمر عبداﷲ نے بھی محبوبہ مفتی کے خیالات سے اتفاق کیا اور حکومت کے اقدام کو یکطرفہ قرار دیا۔ انھوں نے کہاکہ حکومت ہند کا آج حیران کن اور صدمہ انگیز فیصلہ جموں وکشمیر کے عوام کے اعتماد سے مکمل دغابازی ہے ،جبکہ انھوں نے ہندوستان پر 1947 ء میں بھروسہ کیا تھا جب اس ریاست کا انڈیا یونین سے الحاق ہوا ۔ اس فیصلے کے دور رس اور خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔ یہ ریاست کے عوام کے خلاف جارحیت ہے اور انتباہ دیا کہ سرینگر میں تمام پارٹیاں ملکر مستقبل کا لائحہ عمل طئے کریں گے ۔ کانگریس قائدین نے بھی اپنی رائے ظاہر کی اور احتجاج کیا جس میں پی چدمبرم نے محبوبہ مفتی سے اتفاق کرتے ہوئے اسے ہلاکت خیز اقدام قرار دیا۔ چدمبرم نے پارلیمنٹ کے باہر کہا کہ ہمیں کوئی نہ کوئی غلط مہم جوئی کا اندیشہ تھا لیکن ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح کا ناعاقبت اندیشانہ قدم اُٹھائیں گے۔ آج ہندوستان کی دستوری تاریخ کا سیاہ دن ہے ۔ بائیں بازو کے قائدین نے بھی اپنی مخالفت کااظہار کیا ۔ سی پی آئی جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے کہاکہ اس طرح کے اقدام سے جموں و کشمیر کے عوام مزید الگ تھلگ ہوجائیں گے ۔ سی پی آئی ایم نے اسے دستور پر حملہ قرار دیا ۔ تاہم بی جے پی حلقوں میں کچھ اور ہی ماحول تھا ۔ انھوں نے اس اقدام کی ستائش کی اور بعض علاقائی پارٹیوں جیسے بی ایس پی ، بی جے ڈی ، ٹی آر ایس اور آل انڈیا انا ڈی ایم کے کی تائید حاصل ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان پارٹیوں نے قرارداد اور بل کی مکمل حمایت کی ۔ تاہم این ڈی اے میں شامل جے ڈی(یو) نے واک آؤٹ کیا۔ حکومت کو چیف منسٹر دہلی اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کجریوال سے بھی تائید حاصل ہوئی جنھوں نے کہا کہ وہ مرکز کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں اور اُمید ظاہر کی کہ ریاست میں امن اور ترقی کے حصول میں مدد ملے گی ۔