آرٹیکل 370 کی تنسیخ نوٹ بندی کی سیاسی مماثل

   

Ferty9 Clinic

راج دیپ سردیسائی

آرٹیکل 370 پر لوک سبھا میں مباحث کے دوران جذباتی تقریر میں کانگریس رکن پارلیمان (ایم پی) ششی تھرور نے متنبہ کیا کہ جموں و کشمیر (جے اینڈ کے) کیلئے خصوصی درجہ کو برخاست کرنا نوٹ بندی کا ’’سیاسی مماثل‘‘ ہے۔ یہ ریمارکس واجبیت سے دور ظاہر ہوئے، لیکن آرٹیکل 370 اور نوٹ بندی کے درمیان حیرت انگیز مماثلت ہے جو نریندر مودی۔ امیت شاہ طرزِ فیصلہ سازی کی جھلک پیش کرتی ہے۔ دونوں معاملوں میں دور رَس نتائج کے حامل فیصلے پوشیدگی میں اور اقل ترین مشاورت کے ذریعے کردیئے گئے۔ نوٹ بندی کے معاملے میں یہ استدلال پیش کیا گیا کہ نوٹ بندی کا بنیادی مقصد ہی عمل آوری میں رازداری کا متقاضی تھا۔
آرٹیکل 370 کے معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا دعویٰ ہے کہ اس کی تنسیخ تو پارٹی کے ایجنڈے پر جن سنگھ کے دونوں سے ہی رہی ہے۔ مخلوط کی مجبوریوں سے آزاد ہوجانے کے بعد مودی۔ شاہ کا احساس ہے کہ اکثریتی حکومت متنازع قانون سازی کو متعلقین (اس معاملے میں وادیٔ کشمیر کے عوام) سے مشاورت کے بغیر مسلط کرسکتی ہے۔ نوٹ بندی اور آرٹیکل 370 دونوں موقعوں پر جمہوری اداروں کو نظرانداز کردیا گیا، اور دھیرے دھیرے بڑھتے آمرانہ رجحانات کے ذریعے ان کو بے اثر کیا گیا۔
کرنسی سے دستبرداری کا فیصلہ کرتے وقت ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی خودمختاری کو بری طرح چوٹ پہنچائی گئی؛ اب، آرٹیکل 370 کے معاملے میں پارلیمنٹ کی وقعت مجروح ہوئی ہے، اور دوبارہ تھرور کے حوالے سے کہوں تو اس کے ساتھ نوٹ بورڈ جیسا برتاؤ ہورہا ہے، اور یہ مباحث کا فورم نہیں رہا۔ آخری مرتبہ ایسا کب ہوا تھا کہ اس طرح کی بڑی تبدیلی والا بل اپوزیشن کو مطلع کئے بغیر دفعتاً پیش کردیا گیا، اور فوری مباحث پر زور دیا گیا؟
دونوں متنازع فیصلوں کو بلند بانگ اُصولوں کی آڑ میں چھپایا گیا۔ نوٹ بندی کو بدعنوانوں کے خلاف ’’اخلاقی جنگ‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا، جبکہ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کو ’’ایک قوم، ایک پرچم، ایک دستور‘‘ کا حصہ بتایا جارہا ہے، جو قومی تکمل کے تئیں عہد ہے۔ مگر حقیقت کا اقدار کے کوئی بھی اعلیٰ و ارفع نظاموں سے شاید ہی کچھ لینا دینا ہے۔
نوٹ بندی نے چھوٹے تاجر اور بزنس مین کو بقیہ سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا؛ آرٹیکل 370 کی عملاً برخاستگی دستوری طور پر غیراخلاقی انداز کے ساتھ ہوئی، جس میں ایک ریاست کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں بانٹ دیا گیا، جس سے دستور میں محفوظ جذبۂ وفاقیت کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ دونوں معاملوں میں واضح طور پر تشریح کردہ ’’دشمن‘‘ بھی ہے۔ نوٹ بندی میں مالدار طبقہ رہا جسے طبقاتی جنگ میں پھانسا گیا؛ اب وادیٔ کشمیر کے بااثر خاندانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ بات بڑی آسانی سے فراموش کی جارہی ہے کہ ان خاندانوں کو لگ بھگ ہر مرکزی حکومت نے اُبھارا ہے۔ خود مودی حکومت نے بھی 2015ء اور 2018ء کے درمیان یہی کیا۔
کشمیر میں بلاشبہ ایک اور زیادہ فطری ’’دشمن‘‘ ہے۔ یہ جہادی دہشت گرد اور سرحد پار سے اُن کے حمایتی ہیں، جو کشمیر کی کبھی نہ ختم ہونے والی خونریزی کیلئے بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں۔ لیکن چونکہ آپ راست طور پر اسلام آباد کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے، کیونکہ کشمیر آخر تو ہندوستان کا ’’داخلی معاملہ‘‘ ہے، لہٰذا، عبداللہ اور مفتی خاندانوں کو ہی ویلن کے طور پر پیش کرنا کافی آسان ہے۔ بالکل یہی معاملہ نوٹ بندی کے ساتھ ہوا: جب آپ الیکشن فنڈنگ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے ہیں تو چند مالا مال فیملیوں کے دیوالیہ ہوجانے کا احساس پیدا کردینا کافی آسان کام ہے۔
مودی حکومت کے کئے گئے دونوں فیصلے بہت جوکھم والے ہیں، جن کے سیول سوسائٹی پر نہایت انتشار پیدا کرنے والے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ نوٹ بندی نے نقدی پر انحصار کرنے والے غیرمنظم شعبے کے بڑے حصے کو برباد کردیا، جن میں سے کئی اس کے اثر سے ہنوز سنبھل نہیں پائے ہیں۔ آرٹیکل 370 کی برخاستگی ٹورسٹ سیزن کے عروج میں ہوئی، عید کو چند دن باقی تھے، اور خوشی منانے کے موقع پر عام کشمیری پر غیرمعمولی مشقتیں تھوپ دی گئیں۔ علاوہ ازیں، ایسے سیاسی ماحول میں جہاں کشمیری مسلم کا احساس علحدگی بڑھتی ہندو تکثیریت کی وجہ سے شدت اختیار کرچکا ہے، اور مسلمانوں سے ’’بیگانہ‘‘ سمجھ کر نفرت کی جارہی ہے، اس طرح کا اقدام شاید کٹر اسلام پسندوں کو ایک اور وجہ ہی دے سکتا ہے کہ ہندوستانی مملکت سے شاکی ہوجائیں۔
اور اس کے باوجود ان دونوں پریشان کن اقدامات کو رائے دہندوں کے بڑے گوشے کی طرف سے واضح توثیق ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ نوٹ بندی کے معاملے میں یہ بات سلسلہ وار انتخابات سے ثابت ہوئی جو بی جے پی نے جیتے۔ آرٹیکل 370 کو ہنوز انتخابی آزمائش سے گزرنا ہے، لیکن روایت کے مطابق ثبوت اشارہ دیتا ہے کہ بی جے پی نے شاید ’’انڈیا فرسٹ‘‘ کے نعرہ پر ’’قوم پرستانہ‘‘ جذبات بھڑکاتے ہوئے چناؤ جیتنے کا ایک اور ہتھیار حاصل کرلیا ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ نوٹ بندی 2019ء کی انتخابی مہم میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، کیونکہ 8% کی شرح ترقی والی معیشت گھٹ کر 6% شرح ترقی کی طرف آجانے کے بعد حکومت معاشی خلل کو ’’کارنامہ‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مزید ایک سال، اور شاید دو سال تک انتظار کرنا بہتر ہوسکتا ہے کہ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بارے میں کوئی فیصلہ سنایا جائے۔ خوف پیدا کرنے والوں اور خوشی منانے والوں کے درمیان یقینا یہ آزمانے کی ضرورت ہے کہ آیا مودی۔ شاہ جوڑی کی دی گئی دستوری چوٹ واقعی امید اور مواقع کا ’’نیا‘‘ کشمیر بنائے گی یا پریشان حال ریاست کو مایوسی اور غیریقینی کیفیت کے گہرے غار میں مزید آگے ڈھکیل دے گی۔
اختتامی تبصرہ
دہلی کے سیاسی حلقوں میں ایک مذاق نوٹ بندی سے آرٹیکل 370 تک فیصلہ سازی کی بدلتی نوعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پہلے شخصِ واحد کا مظاہرہ ہوا کرتا تھا؛ اب اسے وسعت دیتے ہوئے ڈھائی اشخاص شامل کئے گئے: مودی اور شاہ دو اعلیٰ اختیاری اشخاص، جبکہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوال اس ترکیب میں ’’نصف‘‘ آواز کی حیثیت سے موجود ہیں!٭
[email protected]