آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اس کے اثرات

   

رام پنیانی

موجودہ طور پر ہندوستانی سماج کے بعض گوشوں میں خوشی منائی جارہی ہے اور کشمیر میں غم کے بادل چھائے ہیں۔ منگل 5 اگست (2019ء) کو صدارتی حکمنامہ کے ذریعے آرٹیکل 370 کو آرٹیکل 35A کے ساتھ منسوخ کردیا گیا۔ کشمیر کے شہری، کشمیر کے تاجرین جو ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں، وہ وطن میں اپنی فیملیوں کی خیرخیریت کے تعلق سے کافی تناؤ میں ہیں۔ اس کے متوازی عوام میں خوشیاں ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ آرٹیکلز 370 اور 35A ہی ہیں جنھوں نے کشمیر میں ترقی اور امن کو روکا ہے۔
ان آرٹیکلز کی تنسیخ کا اقدام کافی رازداری میں کیا گیا۔ اس بہانے پر کہ دہشت گرد حملہ کا اندیشہ ہے، بڑی تعداد میں آرمی پرسونل کو وادی میں پہلے سے موجود لاکھوں سپاہیوں کو مزید طاقت بخشنے کیلئے بھیجا گیا۔ ایک طرف بھاری ملٹری تعیناتی اور دوسری طرف ریاست میں مواصلات کو بالکلیہ ٹھپ کردیا گیا اور عوام نہیں جانتے کہ ان کا کیا ہونے والا ہے۔ ساری ریاست میں کہیں نہ کہیں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔
قانون کے پنڈت سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا اس آرٹیکل کو اس طرح ختم کیا جاسکتا ہے جس طرح کیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی جس نے اس خصوصی دفعہ کو وضع کیا، اُس میں شیخ عبداللہ، جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل و دیگر شامل تھے۔ کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ میثاقِ الحاق کی ایک دفعہ میں بیان ہے، ’’اس میثاق میں ایسا کچھ نہیں جو مجھے مستقبل کے کوئی بھی دستورِ ہند کی قبولیت کیلئے کسی بھی انداز میں مائل کرے گا یا مستقبل میں اس طرح کے دستور کے تحت حکومت ہند کے ساتھ معاہدے کرنے کی میری مرضی کو روکے گا‘‘۔ کشمیر کے عوام جیسا کہ اُن کی تب دستور ساز اسمبلی میں نمائندگی ہوئی، انھیں آرٹیکل کی شرائط میں کوئی بڑی تبدیلی کیلئے اعتماد میں لینا پڑتا تھا، اس طرح ہندوستان کے ساتھ رشتہ ؍ الحاق کی شرائط کا معاملہ تھا۔
لہٰذا، ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ آر ایس ایس۔ بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کو حقیقت میں بدلنے کی عجلت میں موجودہ حکومت لاپروائی سے خود کو ایسی سمت کی طرف ڈھکیل رہی ہے جو شاید قانونی طور پر قابل مدافعت نہیں ہے۔ اس معاملے میں قانونی رائے اور سپریم کورٹ کا موقف ان آرٹیکلز اور کشمیر کے درجہ کا قطعی فیصلہ کرنے میں نہایت کلید ہوں گے۔
جو کچھ مودی حکومت نے کیا ہے، اس کی ہندوستانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ صدارتی حکمنامہ کے ذریعے آرٹیکلز 370 اور 35A منسوخ کردیئے گئے، ریاست جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کردیا گیا، ایک جموں و کشمیر اور دیگر لداخ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ریاست کا درجہ مرکزی علاقہ تک گھٹایا گیا ہے۔ سارا مقصد یہی تھا کہ کشمیر الحاق کے وقت والے ابتدائی رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے بہتر جمہوری ماحول پائے گا۔ ایک حکمنامہ کے ذریعے جو چیز مسلط کردی گئی وہ یہ ہے کہ ریاست کو نہ صرف تقسیم کیا گیا، بلکہ اسے تنزلی کرتے ہوئے دو مرکزی علاقوں میں بانٹ دیا گیا، جہاں مرکزی حکومت لیفٹننٹ گورنرس کے ذریعے اپنا حکم چلائے گی، جس میں جمہوری طریقے سنگین حد تک ماند ہوجائیں گے۔ ریاست کے تمام بڑے قائدین محروس کردیئے گئے یا ریاست کے عوام کے ساتھ ربط میں نہیں رہے ہیں۔ ہر طرف جو دکھائی دے رہا ، وہ سنسان سڑکیں اور ہر جگہ ملٹری فورسیس کی بھاری تعیناتی ہے۔
پس منظر
جب بھارت آزاد ہوا، بادشاہی ریاستوں کو بدستور آزاد رہنے یا پھر ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ ضم ہوجانے کا متبادل دیا گیا۔ ایسی اکثر ریاستیں ہندوستان کے ساتھ ضم ہوگئیں۔ جوناگڑھ، حیدرآباد اور کشمیر کے معاملوں میں مسئلہ پیدا ہوا۔ جوناگڑھ کا ہندوستان میں انضمام ہوا اور بعد میں وہاں استصواب رائے عامہ منعقد کیا گیا جس میں جوناگڑھ کے عوام نے ہندوستان کے ساتھ انضمام کے حق میں ووٹ دیا۔ حیدرآباد مسلم حکمران اور ہندو اکثریتی آبادی کے ساتھ چاہتا تھا کہ آزاد رہے یا پاکستان کے ساتھ ضم ہوجائے۔ ملٹری کے ذریعے پولیس ایکشن انجام دیتے ہوئے اسے ہندوستان میں ضم کرلیا گیا۔
کشمیر کے معاملے میں حکمران ہندو تھا، راجا ہری سنگھ، اور اکثریتی آبادی مسلم تھی۔ ہری سنگھ نے آزاد ہی رہنا چاہا۔ اس مرحلے پر پاکستان آرمی نے اُکسا کر کشمیر میں قبائلی حملہ کرایا۔ اس حملے کے پیش نظر ہری سنگھ ہندوستان سے رجوع ہوا کہ پاکستانی جارحیت کو زائل کرنے کیلئے فوجی مدد کے ساتھ اعانت کی جائے۔ چونکہ اُس وقت کشمیر آزاد تھا، اس لئے ہندوستان کیلئے آرمی کو بھیجنا ممکن نہیں تھا اور اس طرح مفاہمت ہوئی۔ اس میں بڑا رول شیخ عبداللہ نے ادا کیا، جو نیشنل کانفرنس کے سربراہ تھے، جو گاندھی اور نہرو کے سکیولر، جمہوری اقدار کی شناخت تھے۔
انڈین آرمی کو پاکستانی جارحیت سے لڑنے میں مدد کیلئے میثاقِ الحاق طے کیا گیا۔ اس میثاق میں الحاق کی بات ہوئی، نہ کہ ہندوستان میں کشمیر کا انضمام۔ اس کے مطابق کشمیر خودمختار موقف کے ساتھ ہندوستان کا حصہ رہے گا۔ خودمختاری کا مطلب یہ کہ کشمیر اسمبلی کو دفاع، مواصلات اور امور خارجہ کے معاملوں کے سواء تمام تر اختیارات حاصل ہوں گے۔ دفاع، مواصلات اور امور خارجہ کے معاملے مرکزی حکومت کے ذمہ ہوں گے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کشمیر کا اپنا دستور، اپنا پرچم، اپنا وزیراعظم اور صدرِ ریاست رہیں گے۔ ان شرائط کے تحت کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہوا۔ ہندوستان نے اپنی آرمی بھیجی اور دو تہائی کشمیر کو پاکستانی جارحیت سے بچا پائے۔ چونکہ مزید جنگ کا مطلب مزید شہریوں کی ہلاکت ہوتا، اس لئے سیزفائر کا اعلان کردیا گیا اور یہ معاملہ اقوام متحدہ سے رجوع کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی اس معاملے میں قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان کی جانب سے جارحیت ختم کی جائے، ہندوستان کی طرف سے آرمی میں کٹوتی کی جائے اور ریفرنڈم یعنی استصواب عامہ منعقد کرایا جائے۔ ریفرنڈم یو این کی نگرانی میں ہونا تھا جس میں کشمیریوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ چاہیں تو آزاد رہیں، پاکستان کے ساتھ ضم ہوجائیں یا ہندوستان کے ساتھ مل جائیں۔
پاکستان جس کی امریکہ نے بھرپور تائید کی، جارح انداز ترک کرنے سے انکار کردیا، اقوام متحدہ قرارداد کی خلاف ورزی کی اور معاملہ تعطل میں پڑگیا کیونکہ کوئی استصواب عامہ منعقد نہیں ہوسکا۔ ’لائن آف ایکچول کنٹرول‘ (حقیقی خط ِ قبضہ) کی اصطلاح بنی، یعنی وہ لائن جس کے دونوں طرف دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کا کنٹرول ہے۔ یہی میثاقِ الحاق ہے جو آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کی اساس کی بنا، اس ریاست کو مزید تحفظ فراہم کیا اور غیرکشمیریوں کو زمین کی فروخت ممنوع کردی گئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی طرح کی دفعات کئی دیگر پہاڑی ریاستوں جیسے ہماچل پردیش اور ناگالینڈ میں لاگو ہیں۔ یہ دفعات پہاڑی ریاستوں اور آدی واسی علاقوں کو دیئے گئے تاکہ ان کو دولت مند صنعت کاروں اور دیگر کے اُمڈ پڑنے اور ان علاقوں کو پریشانی میں ڈالنے سے محفوظ رکھتے ہوئے اُن کی خاصیت کا تحفظ کیا جاسکے۔ ٭
(جاری ہے )
[email protected]