آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اس کے اثرات

   

Ferty9 Clinic

رام پنیانی

گزشتہ اتوار سے آگے …
مودی سرکار کا ایجنڈا
مودی۔ شاہ جوڑی آر ایس ایس ایجنڈے کے مطابق کشمیر میں عدم ترقی، کرپشن اور تشدد کو اِس آرٹیکل (370) کی موجودگی کے سبب قرار دیتے ہیں؛ اس لئے اسی کی پیروی میں وہ اس کو منسوخ کرنے کے اقدام میں عجلت کرتے نظر آئے۔ کیا یہ اقدام اس ریاست کی ترقی کا موجب بنے گا جیسا کہ کئی مبصرین بحث کررہے ہیں، جن میں بی جے پی کیمپ سے تعلق نہ رکھنے والے شامل ہیں۔ ایسی ریاستیں ہیں جہاں زمین باہر والے نہیں خرید سکتے؛ وہاں اراضی کو لیز (ٹھیکہ) پر دیا جارہا ہے اور صنعتیں قائم ہورہی ہیں۔ کیا صنعت کار ایسے علاقوں میں قسمت آزمائی کریں گے جہاں عسکریت پسندی بے قابو اور مائل بہ عروج ہے؟ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کی مودی حکمرانی میں تشدد بڑھتا رہا ہے۔ مودی حکمرانی کے گزشتہ پانچ سال میں سارے ہندوستان میں بے روزگاری میںبے تحاشہ اضافہ بھی ہوا ہے۔ مودی سرکار کی پالیسیاں جو بے روزگاری میں اضافے کا موجب بن رہی ہیں، آیا یہ کشمیر میں صنعت کاری اور روزگار کے دروازے کھول سکتی ہیں، ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمیں صرف وقت ہی بتاسکتا ہے۔ غور کرنے کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ وادی میں ترقی اُن عوامل کو بے اثر کرتے ہوئے لائی جاسکتی ہے جو وہاں ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ وہ کیا عوامل ہیں؟
کچھ پس منظر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے بعد فرقہ پرست قوتیں کافی سرگرم ہوگئیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل جیسی شخصیتیں اُس کمیٹی کا حصہ تھیں جس نے آرٹیکل 370 کو قطعی شکل دی۔ دریں اثناء فرقہ پرست قوتیں جو ہندوستان کی تحریک آزادی سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہیں، اور ہندوستان کو قوم کے طور پر فروغ دینے کے عمل میں جن کا کوئی رول نہ رہا، وہ کشمیر کو ہندوستان میں مکمل ضم کردینے کیلئے شور مچانے لگے۔ اُن کا دباؤ رہا کہ میثاقِ الحاق کو ترک کرتے ہوئے کشمیر کو ہندوستان میں پوری طرح ضم کرلیا جائے۔ قوم نے ہندو قوم پرست ناتھورام گوڈسے کے ہاتھوں بابائے قوم کا ہولناک قتل دیکھا۔ شیاما پرساد مکرجی ہندو مہاسبھا لیڈر جو بعد میں بھارتیہ جن سنگھ کے بانی بنے جو بی جے پی کا سابقہ اوتار تھا، انھوں نے کشمیر کو ہندوستان میں پوری طرح ضم کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ وہ رائج قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر میں داخل ہوئے، گرفتار کئے گئے، اور بدقسمتی سے کشمیر کی جیل میں افسوسناک حالات میں اُن کا دیہانت ہوا۔
شیخ عبداللہ ’شیر کشمیر‘ کو ہندوستان کے سکیولرازم پر بڑا بھروسہ تھا۔ بابائے قوم کے قتل کے باعث اور کشمیر کو ہندوستان میں پوری طرح ضم کردینے ہندو قوم پرستوں کی طرف سے دباؤ کے سبب وہ بہت متزلزل ہوچکے تھے۔ ان تمام تبدیلیوں سے پریشان ہوکر انھوں نے امریکہ، چین اور پاکستان سے بات چیت شروع کی۔ اسے حکومت ہند نے غداری باور کیا اور یہی الزامات پر اُن کو قید میں ڈال دیا گیا۔ یہ کشمیر اور اس کے عوام کیلئے بڑا فیصلہ کن موڑ رہا۔ وہ لوگ جنھوں نے ہندوستان کے خودمختار حصہ کے طور پر پُرامن بقائے باہم کیلئے کوشاں تھے، وہ اس تبدیلی سے بُری طرح متزلزل ہوئے اور کشمیر میں بیگانگی کا عمل شروع ہوا۔ یہ آنے والے وقتوں میں عسکریت پسندی اور علحدگی پسندی کا جرثومہ تھا۔
یہ علحدگی پسندی ابتدائی طور پر کشمیریت کے اقدار میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کشمیریت دراصل ویدانت، بودھ مت اور صوفی اقدار کی ترکیب ہے۔ بعد میں پاکستان کی مدد سے القاعدہ قسم کے عناصر کی کشمیر میں دراندازی پر اس نے بگڑی ہوئی فرقہ وارانہ شکل اختیار کرلی۔ یہ تمام سرگرمیوں کا ہندوستان کی جانب سے وقفے وقفے سے ملٹری کی موجودگی میں اضافہ کے ذریعے جواب دیا گیا۔ وادی میں شہری زندگی کی جگہ بندوق کے سائے میں زندگی نے لے لی۔ کشمیر کے عوام کی زبوں حالی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف عسکریت پسندوں نے اور دوسری طرف ملٹری کی موجودگی نے ریاست میں سماجی زندگی کو تباہ کردیا۔ وہاں بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں دیکھنے میں آئیں، آدھی بیواؤں کا منفرد معمول بھی دیکھنے میں آیا جس میں مرد کئی سال تک لاپتہ رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں معمول کی زندگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے اور الگ تھلگ ہونے کا رجحان مزید بڑھ گیا۔

کشمیری پنڈت
جہاں تک کشمیری پنڈتوں کے اخراج کے تکلیف دہ مسئلہ کا معاملہ ہے، یہ سب صدر راج کے دوران ہوا جب مسٹر جگموہن اس ریاست کے گورنر تھے۔ وہی جگموہن بعد میں بی جے پی میں شامل ہوئے۔ اُس وقت فرقہ پرست عسکریت پسند پنڈتوں کو نشانہ بنارہے تھے۔ ایسا خیرسگالی مشن چلایا گیا جس نے پنڈت کمیونٹی سے اپنے قدم جمائے رکھنے کی درخواست کی اور ریاست سے اپیل کی کہ شہریوں بالخصوص ریاست کے پنڈتوں کی سکیورٹی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ جگموہن نے درحقیقت پریشانی میں گھری اس کمیونٹی کے ترک وطن میں رول ادا کیا۔ بی جے پی لگاتار کہتی رہی کہ کانگریس نے پنڈتوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ہم نے دیکھا کہ اٹل بہاری واجپائی کی چھ سالہ حکمرانی (1998-2004) رہی، اور دوبارہ 2014ء سے مرکز میں بی جے پی زیرقیادت حکومت قائم ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے: کیوں اُن (پنڈتوں) کی بازآبادکاری نہیں کی جاسکی؟ جواب اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ایسی صورتحال میں جہاں تشدد کا ماحول پر غلبہ ہے اور عسکریت پسندی تھمنے کا نام نہیں لے رہی، کس طرح کشمیری پنڈت اپنے مکانوں کو واپس جاسکتے ہیں؟ عسکریت پسندی کی جڑیں اجنبیت و بیگانگی میں مضمر ہے، اور اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے۔ ہمیں کچھ زیادہ گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے کہ پنڈت اپنے اصل مکانات اور علاقوں کو جائیں اور رہیں۔

گزشتہ پانچ سال میں کیا ہوا؟
یوں تو تشدد کے واقعات وقفے وقفے سے پیش آتے رہے ہیں، لیکن جب کبھی بات چیت کا عمل ترک کیا گیا، ایسی حرکتیں بڑھ گئیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد بڑھی ہے۔ عوام کی بے اطمینانی کا اظہار سنگباری کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے، اور ایسے واقعات اِس بار بڑھ گئے ہیں۔ اسے محض پاکستان کی جانب سے فنڈنگ سے منسوب کردینا کوتاہ نظری ہوگی۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے منفی رول ادا کیا ہے، لیکن بڑا سبب کشمیر کے عوام میں بے اطمینانی ہے۔ بی جے پی۔ آر ایس ایس کو تمام ناکامیوں کیلئے نہرو کو موردِ الزام ٹھہرانے سے فرصت نہیں ہے۔ وہ پروپگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر نہرو کی غلطیوں کے سبب پریشان کن بنا اور اگر سردار پٹیل نے کشمیر کے معاملے سے نمٹا ہوتا تو کبھی کا یہ حل ہوچکا ہوتا۔ سچائی یہ ہے کہ سردار پٹیل کو ریاست حیدرآباد کو ہندوستان میں ضم کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ کشمیر کے تعلق سے انھوں نے بیان دیا تھا کہ اگر پاکستان حیدرآباد کے ہندوستان میں انضمام میں رخنہ نہ ڈالے تو انھیں پاکستان کے ساتھ کشمیر ضم ہوجانے پر اعتراض نہ ہوگا۔ نہرو پر آرٹیکل 370 کیلئے الزام لگایا جاتا ہے؛ یہ پروپگنڈہ ہے کیونکہ یہ آرٹیکل اُس غوروخوض کا نتیجہ ہے جس میں شیخ عبداللہ، پنڈت نہرو اور سردار پٹیل تمام شریک تھے۔ سیزفائر کا فیصلہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں دوبارہ اٹھایا گیا، جس میں سردار پٹیل رکن تھے۔ نہرو کا استصواب رائے عامہ پر اتفاق کرنا درست تھا کیونکہ وہی اُصول تھا اور حتیٰ کہ جوناگڑھ میں جہاں پٹیل کلیدی شخصیت تھے، استصواب رائے عامہ منعقد کیا گیا، جس میں جوناگڑھ کے عوام نے ہندوستان کے ساتھ ضم ہوجانے کی رائے دی۔

راستہ برائے امن
جو کچھ مودی۔ شاہ جوڑی نے کیا ہے، جارحانہ طاقت پر مبنی قوم پرستی ہے۔ جمہوری اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ کشمیر کے عوام کے جذبات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جمہوری طریقوں کی جگہ بندوق کی نالی نے لے لی ہے۔ جو کچھ اٹل بہاری واجپائی نے وضع کیا تھا یعنی انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت، اُس کے برعکس پالیسیاں دیکھنے میں آرہی ہیں جو محض قوم پرستانہ جنون ہے، جو جمہوری نظام کیلئے مقامی عوام کے جذبات اور اُمنگوں کو کچل رہا ہے۔ بعض گوشے ڈاکٹر امبیڈکر کے ذریعے نہرو کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس معاملے کی سچائی یوں ہے: حتیٰ کہ وہ (بھی) مسلم اکثریت کے پاکستان چلے جانے کے حق میں تھے جیسا کہ انھوں نے اپنی رائے کی توضیح اپنی تصانیف (تحریریں اور تقاریر) میں کی ہے … صفحہ 14، پارٹ 2، صفحہ 1322 ۔
کشمیر کے لوگ کس طرح کا ردعمل ظاہر کریں گے؟ یہ دیکھنا ہوگا۔ موجودہ طور پر کشمیریوں میں ہر طرف عدم سلامتی کا شدید احساس ہے۔ ہمیں ان لوگوں کو ہماری فیصلہ سازی کے مرکز میں برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی پر پاکستان اور چین کے ردعمل کچھ دوستانہ نہیں ہیں۔ ہم ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے ساتھ ہی امن سے رہ سکتے ہیں، ہم ریاست کے عوام کے جذبات اور امنگوں کا احترام کرتے ہوئے ہم آہنگ ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔ جموں و کشمیر کا درجہ محض مرکزی علاقہ تک گھٹا دینا تشویش کا معاملہ ہے۔ سالمیت کا عمل صرف باہمی بات چیت، ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور جمہوری طریقوں کو مضبوط کرنے سے ہی ممکن ہے۔ ہم اس مسئلہ پر قانونی رائے کے منتظر ہیں، لیکن ہمیں کشمیریوں کو اُن کی تکلیف پر تسلی دینے کی ضرورت ہے۔ کسی فیصلہ کی آزمائش اُن لوگوں کے ردعمل میں مضمر ہوتی ہے جو بنیادی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں اس وقت کا انتظار ہے جب اصلاحی اقدامات کئے جائیں گے جن کے ذریعے کشمیر کے عوام، کشمیری پنڈت … تمام خوشی مناسکیں اور کشمیر کی روح یعنی کشمیریت کا احیاء ہو۔٭
[email protected]