آر ایس ایسہندوؤں کو بیوقوف کیسے بنارہی ہے

   

رام پنیانی
سال 2018ء میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے وگیان بھون میں کئی ایک لیکچر دیئے اور ان کی لیکچر سیریز میں خاص بات یہ نوٹ کی گئی کہ ان لیکچرس میں ایسا لب و لہجہ استعمال کیا جس پر سنگھ کے بے شمار لیڈروں اور سنگھ سے باہر کئی مبصرین نے محسوس کیا کہ یہ آر ایس ایس کیلئے ایک بڑا مرحلہ ہے اور اس میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ آر ایس ایس سربراہ نے اپنے لیکچرس میں نہ صرف دستور ہند کی تمہید پڑھی بلکہ سکیولرازم و سوشلزم کی تائید کی۔ (آر ایس ایس کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک ایسا دور بھی تھا جب اس کے بانیوں اور دوسرے قائدین نے ہندوستانی آئین اور ہندوستانی قومی پرچم کو قبول کرنے سے انکار کیا، باالفاظ دیگر دھتکار دیا تھا لیکن ہندوستانیوں نے آر ایس ایس اور اس کے قائدین کو دستور ہند ماننے اور ہندوستانی قومی پرچم قبول کرنے پر مجبور کیا) لیکن موہن بھاگوت نے 2018ء میں اپنے لیکچرس میں جو زبان استعمال کی تھی، اس میں ایسا لگتا ہے کہ بڑی تیزی سے تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران آر ایس ایس کے ترجمان اخبارات ’’پنج جنیہ‘‘ اور ’’آرگنائزر‘‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے جو زبان استعمال کی، اسے ہم گولوالکر 2.0 کی زبان کہہ سکتے ہیں۔ گولوالکر نے اپنی کتاب Bunch of thoughts میں جس کا ان دنوں سنگھ کے نظریہ سازوں نے زیادہ حوالے نہیں دیئے۔ واضح طور پر کہا کہ مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹس ہندو قوم کیلئے داخلی خطرہ ہیں۔ اپنی ایک اور کتاب We or Our Nationhood Defined میں گولوالکر کہتا ہے کہ ہم ایک ہندو قوم ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی اقلیتوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک اختیار کیا جانا چاہئے جس طرح جرمنوں نے جرمنی میں یہودیوں اور دوسرے کمزور طبقات کے ساتھ کیا۔ اب جبکہ بھاگوت یہ کہتے ہیں کہ خطرہ خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ موہن بھاگوت، گولوالکر کے بیان اور اس کے نظریہ کو دہرا رہے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ موہن بھاگوت سے چند مسلم دانشوروں نے ملاقات کی اور اس ملاقات کے ذریعہ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ جائز ہے اور ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ اب موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ موہن بھاگوت آر ایس ایس ایجنڈہ کو ایک ایسی شکل میں پیش کرنا چاہتے ہیں جس سے ’’سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ چنانچہ انہوں نے اسی لئے کہا کہ ہندو پچھلے ہزار برسوں سے حالت ِجنگ میں رہے ہیں اور اب ہندو بیدار ہوگیا ہے۔
بھاگوت کے مطابق بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو آج کوئی نقصان نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے مذہب و عقیدہ پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں اور اگر وہ اپنے آباء و اجداد (ہندوؤں) کے مذہب پر واپس ہونا چاہتے ہیں تو واپس ہوسکتے ہیں۔ یہ انتخاب اور پسند پوری طرح مسلمانوں پر منحصر اور ہاں! مسلمانوں کو ان میں پائے جانے والے احساس برتری کو ترک کرنا چاہئے (آر ایس ایس سربراہ کے خیال میں مسلمان اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم نے تقریباً ہزار برسوں تک اس ملک پر حکومت کی ہے اور مستقبل میں بھی ہم حکومت کریں گے، اس طرح کا خیال مسلمانوں کو اپنے اذہان و قلوب سے نکال دینا چاہئے)۔ آر ایس ایس کے دونوں ترجمان اخبارات کو دیئے گئے انٹرویو میں موہن بھاگوت نے ظالمانہ مسلم حملوں، غیرقانونی تارکین وطن سے لے کر ہم جنس پرستوں، خواجہ سراؤں کو معاشرہ میں جگہ دینے جیسے کئی موضوعات کا احاطہ کیا۔ بھاگوت کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کو ڈرنے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں چلتی ٹرینوں میں موقع بہ موقع مار کھانے یا پیٹے جانے کا عادی ہوجانا چاہئے جیسے عاصم حسین کو مارا پیٹا گیا، مسلمانوں کو کورونا جہاد یا لینڈ جہاد (شاہین باغ، ہلدوانی) یا یو پی ایس سی جہاد اور اس طرح کی دوسری ناپسندیدہ چیزوں کا عادی ہوجانا چاہئے یعنی انہیں ظلم و ستم اور ناانصافیاں سہنے کا عادی ہوجانا چاہئے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ شناخت کا مسئلہ ہے کیونکہ اس ملک میں رہنے والوں کی شناخت اور مذہب کو آر ایس ایس پہلے دیکھتی ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں زمانہ قدیم سے ہی مختلف مذاہب کے ماننے والے اور تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے پائے جاتے رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں آر ایس ایس سربراہ کی عجیب و غریب منطق پر کئی ایک سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہاں رہنے والوں اور بودوباش اختیار کرنے والوں کی پہچان اور مذہب (ہندوازم) تھی؟ کیا جنوبی ایشیا کی کمیونٹی ایک ہی مذہب ، ایک ہی عقیدہ کو ماننے والی تھی جو ایک بادشاہ یا پھر ایک جمہوریہ کے تحت قیام پذیر تھی۔ قومی ریاست کا موجودہ تصور صرف چند صدیوں قدیم ہے اور اس سے پہلے یہاں پر جو چرواہوں کے گروہ اور مذہبی گروہ تھے۔ ان کے بعد مملکتیں وجود میں آئیں اور پھر ایک دوسرے سے الجھی رہی۔ یہ ہندو مقابلہ دوسرے والا معاملے نہیں تھا۔ اس ملک میں تو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ حصول اقتدار کیلئے لڑائیاں لڑی گئیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال کافی ہوگی۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کو اپنی مملکت قائم کرنے کیلئے چندرا راؤ مورے کو شکست دینی پڑی، وہ بھی تو ایک ہندو راجہ تھا۔ ان کی فوجوں نے سورت اور بنگال میں تباہی مچائی۔ لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ بنگال میں مراٹھا فوج نے بڑی بیدردی سے لوٹ مار کی۔ خاص طور پر اس وقت کے دولت مند ترین تاجر جگت سیٹھ کو لوٹا۔ اس فوج کے لوٹ مار کے قصہ کہانیاں آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ کیا کوئی ان حقیقت پر مبنی واقعات سے انکار کرسکتا ہے۔آخر سنگھ اور اس کے حامی اس حقیقت کو منظر عام پر لانے سے گریز کیوں کرتے ہیں۔ جب شیواجی نے مغل حکمراں اورنگ زیب کے خلاف جنگ کی تب شیواجی کی فوج میں ابراہیم گردی اور دولت خان جیسے جرنیل تھے۔ شیواجی مہاراج پر قابو پانے کیلئے اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے اعلیٰ عہدیدار راجہ جئے سنگھ کو روانہ کیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب آخر کیا ہے۔ کیا ہندو 1000 برسوں سے حالت جنگ میں ہیں؟ یہ بنیادی طور پر مختلف مملکتوں، راجاؤں اور بادشاہوں سے متعلق تاریخ ہے نہ کہ عوام سے متعلق تاریخ۔ اس ضمن میں ایک اور مثال ہم آپ کیلئے پیش کرتے ہیں۔ وہ رانا سانگھا ہی تھا جس نے ابراہیم لودھی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کیلئے بابر کو مدعو کیا تھا۔ اسی طرح بھیما کورے گاؤں کی جنگ میں پکی پپشو کی فوج میں کرایہ کے عرب سپاہی شامل تھے۔ ایک اور مثال رانا پرتاپ کی فوج ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں پٹھان فوجی موجود تھے اور جنہوں نے ہلدی گھاٹ میں اکبر اور ان کی فوج کا مقابلہ کیا۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقی جدوجہد سماجی سطح پر تھی۔ اعلیٰ ذات کی بالادستی اور نچلی ذات کے خلاف مظالم سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ اعلیٰ اور ادنی کے نام پر بالادستی، برتری، رعب و دبدبہ اور ظلم و جبر تحقیر آمیز رویہ عام تھا۔ اس معاملے میں سوامی وویکانندا نے بہت اچھی بات کہی تھی کہ بادشاہوں و راجاؤں کے انتظامیہ ملے جلے ہوا کرتے تھے اور سماجی سطح پر لوگوں کے باہمی روابط نے ہماری تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا جو روایات کا بہترین مرکب تھا اور ایسا بلالحاظ مذہب ہوا کرتا تھا۔ سب کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ آر ایس ایس نظریہ کی ساری عمارت دراصل ہماری تاریخ کے ذات پات ؍ وارنا مظالم پر پردہ ڈالنے کیلئے ہے۔ آر ایس ایس ، راجاؤں اور بادشاہوں کی جنگوں کے اغراض و مقاصد کو تو عوام کی نظروں سے چھپاتی ہے، ساتھ ہی مختلف مسلم بادشاہوں بالخصوص مغل بادشاہوں کے بارے میں یکطرفہ ، جانبدارانہ اور متعصبانہ نظریات پھیلاتی ہے، وہ ایک طرف مسلم حکمرانوں کو جارحیت پسند حملہ آور کا نام دیتے ہیں اور بابر کو ہندوستان مدعو کرنے والے ہندو راجاؤں کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ دراصل تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔ آر ایس ایس ہندوؤں کی نمائندوں کے بھیس میں خود کو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہندو جاگ گیا ہے اور بحیثیت ہندو وہ حالت ِ جنگ میں تھا اور پچھلے دو دہوں کے دوران ہندو بیدار ہوا ہے اور پچھلے 8 برسوں میں وہ انتہائی سرگرم حالت میں ہے، جیسا کہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ہندو جاگ اُٹھا ہے، اس کے جاگنے کا مطلب مسلمانوں اور عیسائیوں جیسی اقلیت پر تشدد میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ کیا ہندو جاگ گیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ دارا سنگھ ہندوؤں کی نمائندگی کرتا ہے (جو عیسائی مشنری پاسٹر گراہم اسٹین اور ان کے دو معصوم بچوں کا قاتل ہے) یا شمبھو لال ریگر ہندوؤں کی نمائندگی کرتا ہے جس نے افروزل کا بہیمانہ قتل کیا؟ کیا وہ لوگ جو ہجومی تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں۔ ہندوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ موہن بھاگوت مسلمانوں کو نہ ڈرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جبکہ خاص طور پر مسلمانوں کو بلڈوزروں کے ذریعہ انصاف دیا جارہا ہے اور قبائیلی علاقوں میں عیسائیوں پر حملے ہورہے ہیں۔