رام پنیانی
بی جے پی قائدین اور آر ایس ایس کے رہنما اگرچہ موقع بہ موقع ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا نام لیتے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی تعظیم کرتے ہیں، ان کی تعلیمات کو ان کے پیغامات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور آر ایس ایس کے نظریات یکسر متضاد ہیں اور ہم انہیں ہندوستانی سیاست کا ایک قطب جنوبی تو دوسرا قطب شمالی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امبیڈکر ہمیشہ ہندوستانی معاشرہ سے ذات پات پر مبنی امتیاز، تعصب و جانبداری کے خاتمہ پر زور دیتے رہے۔ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور سماجی انصاف کی سمت مارچ کرتے رہے۔ اس کے برعکس آر ایس ایس ہمیشہ ذات پات کی درجہ بندی جوں کی توں رکھنے کے حق میں رہی اور اس نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ عصری ادوار سے قبل ذات پات کی درجہ بندی کا جو نظام تھا اس کا احیاء ہو۔ یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات رہی کہ اس قدر زیادہ تضادات کے باوجود آر ایس ایس نظریہ سازوں نے مختلف فورمس میں یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ امبیڈکر کی تعظیم کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ امبیڈکر کو سخت ناپسند کرتے ہوئے بھی یہ لوگ ظاہری طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم امبیڈکر کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نظریہ ساز امبیڈکر کی سالگرہ تقاریب بھی مناتے ہیں چنانچہ 24 اکٹوبر کو آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے سالانہ وجئے دشمی خطاب میں جب اپنے حامیوں اور آر ایس ایس کارکنوں پر اس بات کے لئے زور دیا کہ وہ امبیڈکر کی تقاریر کا مطالعہ کریں کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ آر ایس ایس سرسنچالک نے اپنے کارکنوں، حامیوں اور ہمدردوں سے خاص طور پر امبیڈکر کی آخری اُن دو تقاریر کے مطالعہ کی خواہش کی جو انھوں نے دستور ساز اسمبلی میں کی تھی۔ بھاگوت نے امبیڈکر سے اس قدر زیادہ قلبی لگاؤ کا اظہار کیاکہ انھیں آر ایس ایس کے بانی اور پہلے سربراہ کے بی ہیڈگوار کی صف اور زمرہ میں لاکھڑا کردیا۔ عام طور پر امبیڈکر نے جس طرح مساوات کے لئے جدوجہد کی اس قسم کی جدوجہد کی آر ایس ایس مخالفت کرتی رہی ہے اور اس کے لئے وہ ہمارا شاندار ماضی کی رٹ لگاتی رہی اور اسی نعرے کے بہانے اس نے مساوات کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی مخالفت کا سلسلہ جاری رکھا۔ جہاں تک سماجی انصاف کی جدوجہد کا سوال ہے یہ سب سے پہلے غیر برہمنی تحریک کی شکل میں مہاراشٹرا کے علاقہ ودربھا سے شروع ہوئی۔ اس طرح سماجی انصاف کی تحریک کی ابتداء کا اعزاز ناگپور کو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ہی اس علاقہ کے زمیندار برہمنوں نے اپنے علاقہ میں آر ایس ایس قائم کرنے ایک اتحاد تشکیل دیا اور پھر مہاراشٹرا میں برہمن زمینداروں کا یہ اتحاد SHETJI-BHATJI کہلایا۔ اگر دیکھا جائے تو دلتوں میں شعور بیداری کا آغاز جیوتی راؤ پھولے کی تحریک کے ساتھ ہی ہوتا ہے جنھوں نے دبے کچلے ذاتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لئے اسکولس کھولنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی جس کی تائید و حمایت امبیڈکر نے کی۔ اس کے لئے انھوں نے 1920 ء میں موک نائک اور 1923 ء میں بہوجن ہتکری سبھا جیسے اخبارات شروع کئے اور ہوسکتا ہے کہ ان اخبارات کی وجہ سے بھی دلتوں اور دوسرے پسماندہ طبقات میں شعور بیدار ہوا ہو۔ بعد میں سماجی انصاف کو یقینی بنانے کی اپنی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے امبیڈکر نے 1927 ء میں چاؤدار تالے ستیہ گرہ (پینے کے پانی کے سرکاری نلوں تک دلتوں کی رسائی) کا اہتمام کیا۔ 1930 ء میں کالارام مندر میں داخل ہونے کی تحریک شروع کی۔ خود آر ایس ایس کو معلوم نہیں ہوگا کہ کبھی وہ بابا صاحب امبیڈکر کی ان تحریکوں کی تائید و حمایت کے لئے آگے آئی ہو۔ ذات پات پر مبنی امتیاز اور درجہ بندی کے مسئلہ پر اگر اعلیٰ ذات کے کسی لیڈر نے سنجیدگی سے کوشش کی اور دلتوں کی حالت زار سدھارنے کی نہ صرف بات کی بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات بھی کئے تو وہ صرف گاندھی تھے جنھوں نے 1932 ء میں معاہدہ پونہ کے بعد دلتوں کی حالت زار میں بہتری لانے کی بھرپور کوشش کی جبکہ وہ ایسا وقت تھا جب آر ایس ایس نظریہ ہندو راشٹر یا آئیڈیا کے پروپگنڈہ میں مصروف تھی۔ وی وی ساورکر دو قومی نظریہ کی بھرپور تائید و حمایت کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ وہ اس بات کے حامی تھے کہ ہندوستان کو دو ملکوں ہندو ملک اور مسلم ملک میں بانٹ دیا جائے۔ ہندو راشٹرا سے متعلق اس نظریہ کا آر ایس ایس نے پروپگنڈہ کیا لیکن ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے آر ایس ایس کے اس نظریہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس ضمن میں انھوں نے کچھ یوں لکھا ’’یہ بڑا عجیب لگتا ہے مسٹر ساورکر اور مسٹر جناح ایک قوم بمقابلہ دو اقوام یا ملکوں کے مسئلہ پر ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کی بجائے دو قومی نظریے کے بارے میں پوری طرح متفق ہیں۔ دونوں نہ صرف متفق ہیں بلکہ اصرار کرتے ہیں کہ ہم دو مختلف قومیں ہندو اور مسلم ہیں‘‘۔ (تھارٹ آف پاکستان 1940ء)
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، ساورکر اور جناح دونوں کے مخالف تھے کیوں کہ دونوں ہندو ملک اور مسلم ملک کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی باتیں کررہے تھے اور امبیڈکر ایک ہندو راشٹرا سے متعلق نظریہ اور تصور کے بالکل خلاف تھے۔ ایک مرتبہ اس ضمن میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر ہندو راج ایک حقیقت بن جاتا ہے تو یہ بلاشبہ اس ملک کے لئے سب سے بڑی آفت ہوگی۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر بننے سے کسی بھی قیمت پر روکا جانا چاہئے۔ (پاکستان یا ہندوستان کی تقسیم 1946 صفحات 354-355 میں مذکورہ جملے لکھے ہیں) امبیڈکر اکثریت پسندی کے بھی مخالف تھے۔ ہندوستانی تناظر میں جس کا مطلب اکثریتی طبقہ ہندوؤں کی بے لگام حکمرانی یا حکومت ہے اور جہاں تک موجودہ حالات یا صورتحال کا سوال ہے یہ موہن بھاگوت کی قیادت میں آر ایس ایس کا موجودہ غالب نظریہ ہے کیوں کہ نریندر مودی اس کے دفاع کے لئے آگے آئے ہیں اور وہ یہ دریافت کرتے ہیں کہ اکثریت پسندی میں کیا بُرائی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ جس وقت ہمارے آئین یا دستور کا مسودہ پیش کیا گیا آر ایس ایس نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور اپنے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ میں اس تعلق سے سخت الفاظ پر مبنی اداریہ نومبر 1949 ء کے ایڈیشن میں شائع کیا گیا۔ اس اداریہ میں آر ایس ایس نے دستور ہند کی شدید مخالفت کی۔ اداریہ میں لکھا گیا کہ بھارت کے نئے دستور کی بدترین (چیز) یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی بھارتی نہیں ہے۔ اس نئے دستور میں بھارت کی ماضی کی شاندار تاریخ کو فراموش کردیا گیا۔ قدیم بھارتی دستوری قوانین، اداروں، ناموں اور جملوں و محاوروں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔
امبیڈکر نے ہندو کوڈ بل کا جو مسودہ تیار کیا وہ خواتین کے لئے مساویانہ حقوق کی کوشش اور مردوں کی اجارہ داری ختم کرنے کی سمت ایک بہت بڑا قدم تھا لیکن آر ایس ایس کی زیرقیادت قدامت پسند طاقتوں نے امبیڈکر اور ان کے پیش کردہ ہندو کوڈ بل پر رکیک حملے کئے۔ اس سلسلہ میں جدید ہندوستان کے ممتاز مؤرخ رامچندرا گوہا نے بہت خوب لکھا ہے ’’سنگھ پریوار (آر ایس ایس) نے ہندو کوڈ بل کی منظوری کی شدت سے مخالفت کی کیوں کہ اس بل میں ہندو خواتین کو اپنی ذات سے باہر شادی کی اجازت دینے کی وکالت کی گئی تھی، ساتھ ہی اپنے شوہر کو طلاق دینے کے علاوہ موروثی جائیداد میں حصہ دینے پر زور دیا گیا۔ چنانچہ 1949 ء میں اس بل کے خلاف آر ایس ایس نے ہزاروں اجلاس منعقد کئے۔ سارے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد عمل میں لایا تاکہ اس بل کو روکا جاسکے۔ حد تو یہ ہے کہ امبیڈکر کے متعارف کردہ بل کے خلاف آر ایس ایس کے جو مظاہرے اور جلسے منعقد ہوئے ان سے خطاب کے لئے سادھو اور سنت بھی آگے آئے۔ امبیڈکر کے بنائے ہوئے دستور کے مسودہ میں درج فہرست طبقات و قبائل کے لئے تحفظات کی گنجائش فراہم کی گئی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ درج فہرست طبقات و قبائل کو تحفظات فراہم کرنے سے متعلق دستور کی دفعات کی نہ صرف دائیں بازو نے مخالفت کی بلکہ اس کے خلاف پروپگنڈہ بھی کیا۔ اس طرح امبیڈکر کے ساتھ ساتھ دستور کو بدنام کرکے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں 1960-61 ء کے دوران گجرات میں دلت مخالفت تشدد پھوٹ پڑا۔ اس طرح 1985 ء میں بھی اس مسئلہ کو لے کر تشدد برپا کیا گیا۔ منڈل کمیشن کے تحت او بی سیز کے لئے ریزرویشن کی بالواسطہ مخالفت کی گئی۔ اس وقت ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہوئے رتھ یاترا نکالی گئی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ اٹل بہاری واجپائی جیسا لیڈر یہ کہنے لگا کہ ان لوگوں نے منڈل لایا ہم نے کمنڈل لایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے 6 ڈسمبر کو شہادت بابری مسجد کی نگرانی کی۔ وہ دن امبیڈکر کا یوم پیدائش بھی ہے۔ دراصل وہ سنگھ پریوار کی چال تھی تاکہ اس دن کی اہمیت کو گھٹادیا جائے اس لئے کہ امبیڈکر کی پیدائش کا دن جمہوری اقدار کی اہمیت کا دن ہے جہاں تک اقلیتوں کا سوال ہے امبیڈکر چاہتے تھے کہ انھیں دستور کی دفعات کے تحت مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ اگرچہ آزاد ہندوستان میں دستور کی اُن دفعات پر پوری طرح عمل آوری نہیں کی گئی اور جب بھی ان پر عمل آوری کی کوشش ہوئی سنگھ نے اسے اقلیتوں کی خوشامدی قرار دیا۔ بابا صاحب اخوت و بھائی چارگی کے خواہاں تھے اس کے برعکس اکثریت پسندی کی سیاست نے اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلائی، نتیجہ میں تشدد برپا ہوا۔