کانچہ ایلیا شیفرڈ
ہمارے ملک کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے حالیہ عرصہ کے دوران ہندی کی تائید و حمایت اور انگریزی کی مخالفت میں ایک بیان دیا ہے ۔ انھوں نے اپنے پروقار عہدہ کا پاس و لحاظ کئے بناء کہاکہ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان میں انگریزی بولنے والوں ( انگریزی زبان میں بات چیت کرنے والوں ) کو شرم آئے گی ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستانی تہذیب و تمدن یہاں کے رسم و رواج اور روایات و اقدار کے ساتھ ساتھ دھرم (مذہب) کو آدھی ادھوری بیرونی زبانوں سے نہیں سمجھا جاسکتا ۔ بہرحال امیت شاہ وزیرداخلہ ہیں اور انھوں نے انگریزی زبان کے خلاف جو بیان دیا ہے اس پر میرا خیال ہے کہ کاش وہ وزیر اُمور خارجہ ہوتے اور انگریزی کے بارے میں اس قسم کا بیان دیا ہوتا ۔
انگریزی بولنے والوں کو شرم آئے گی والا بیان دینے سے پہلے امیت شاہ کو ملک کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے اپنے بیٹے جئے شاہ سے کہنا چاہئے تھا کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے مستعفی ہوجائیں کیونکہ آئی سی سی کے جو بھی اجلاس اندرون و بیرون ملک ( ہندوستان یا بیرونی ممالک ) میں منعقد ہوتے ہیں وہ انگریزی میں ہی ہوتے ہیں ۔ کیا امیت شاہ کو اس بارے میں کسی قسم کا احساسِ شرم نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسے بیٹے کے باپ ہیں جو ہندوستان اور بیرونی ملکوں میں آئی سی سی میٹنگس سے صرف انگریزی زبان میں بات کرتا ہے ۔
یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ امیت شاہ جو خود کو مادری زبان کے حامی قوم پرست کے طورپر پیش کرتے ہیں آخر کیوں اپنے بیٹے کو انگریزی میڈیم اسکول سے تعلیم دلائی ؟ انٹرنیٹ ذرائع سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ جئے شاہ نے انگریزی میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں احمدآباد کی نرما یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔ وہاں جئے شاہ کو ان کے پروفیسروں نے کس زبان میں پڑھایا ؟ انھوں نے آخر اپنے گریجویشن کا امتحان کس زبان میں لکھا ؟
فطری بات ہے انگریزی میڈیم کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے انھوں نے امتحانات انگریزی میں ہی لکھے ہوں گے ، کیا امیت شاہ کو اس بات پر شرم نہیں آتی کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو ایل کے جی سے ہی انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ دلایا۔ واضح رہے کہ مکیش اور انیل امبانی جیسے گجرات کے سرفہرست بنئے صنعتکاروں نے نہ صرف مشہور و معروف انگریزی میڈیم اسکولس سے تعلیم حاصل کی بلکہ وہ ممبئی میں ایک انتہائی مہنگا انگریزی میڈیم اسکول دھیرو بھائی امبانی انٹرنیشنل اسکول چلاتے ہیں۔ امبانی خاندان کی طرح اڈانی گروپ بھی ایک بہت ہی مہنگا انگریزی میڈیم اسکول چلاتا ہے کیا امبانی فیملی اور اڈانی گروپ کی جانب سے چلائے جانے والے ان اسکولوں میں پڑھنے والے تمام بچے اپنے اساتذہ کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کرتے ہیں یا پھر گجراتی اور مراٹھی میں گفتگو کرتے ہیں؟
امیت شاہ کو انگریزی اور انگریزی میں بات چیت کرنے والوں کے خلاف بکواس کرنے کے بجائے مکیش امبانی کی فیملی سے یہ کہنا چاہئے کہ وہ دھیرو بھائی امبانی انٹرنیشنل انگریزی میڈیم اسکول کو مراٹھی میڈیم اسکول میں تبدیل کردے ۔ اسی طرح امیت شاہ کو اڈانی گروپ پر زور دینا چاہئے کہ اپنے انٹرنیشنل انگریزی میڈیم اسکول احمدآباد کو گجراتی میڈیم میں تبدیل کرے ۔ امیت شاہ کو تو چاہئے کہ ہریانہ میں واقع اشوکا یونیورسٹی اور دوسری تمام خانگی یونیورسٹیوں کو نوٹس بھیجے جس میں اُن سے کہا جائے کہ طالب علم کی مادری زبان کی بنیاد پر علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جائے اور کسی پر بھی ہندی کو زبردستی نہ تھوپا جائے کیونکہ ہندی ہندوستان میں پیدا ہونے والے ہر بچہ کی مادری زبان نہیں ہے جیسا کہ امیت شاہ بار بار ہندی کے بارے میں اس قسم کا پروپگنڈہ کررہے ہیں ۔
امیت شاہ جو زبانوں کی تاریخ سے مکمل طورپر ناواقف ہیں یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ علاقائی زبانوں یا ہندی میں پائی جاتی ہے اس لئے ہندوستان کی تاریخ تہذیب و تمدن اور مذہب کو کسی بیرونی زبان سے نہیں سمجھا جاسکتا ۔ اُن کانگریزی زبان کے بارے میں ایسا کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ عوام اور ملکوں کی تاریخ ہمیشہ علوم کے جو نظام ہیں اُن میں محفوظ رہتی ہے ۔ انگریزی دنیا کی مقبول ترین زبان ہے اور ہندوستانی تاریخ کو ہندی یاعلاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ بہتر طورپر اپنے آپ میں سمائے یا محفوظ رکھ سکتی ہے ۔
دوغلا پن اور منافقت قوم پرستی نہیں ہے : آر ایس ایس ؍ بی جے پی کے منافقت کے حامل لیڈران شودر ؍ او بی سی ؍ دلت ؍ قبائیلی نوجوان نسل کا مستقبل تباہ و برباد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وہ خانگی شعبہ کو زندگی کے ہر شعبہ میں انگریزی زبان استعمال کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ، اُن کی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سرکاری شعبہ کو منظم طورپر علاقائی زبانوں تک محدود رکھنے پر مجبور کررہے ہیں ۔ یقینا کانگریس نے آزادی کے بعد خانگی شعبہ کے نظام میں انگریزی میڈیم کا آغاز کیا اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی گئیں کہ وہ اپنی زبانوں میں علاقائی زبانوں کے اسکولس قائم کریں اس سے علاقائی نوجوانوں کی ترقی کی راہیں مسدود ہوگئیں اور شودر لیڈران جیسے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے شودر ؍ دلتوں ؍ قبائیلوں اور دیہی زرعی پیشہ لوگوں کے مستقبل پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا صحیح طورپر اندازہ نہیں لگایا اس کے برعکس آزادی کے فوری بعد بنگالی اور تامل برہمنوں نے دوسرے علاقائی اعلیٰ ذاتوں کی بہ نسبت انگریزی کے مستقبل کو اچھی طرح سمجھا اور پھر سب نے دیکھا کہ انگریزی کے نتیجہ میں پنڈت نہرو کے دور حکومت میں ان لوگوں نے تعلیمی اور نوکر شاہی ( بیورو کریٹک ) سطح پر غیرمعمولی طاقت حاصل کرلی اور کل اختیارات کے مالک بن بیٹھے ۔
گیتا راما سوامی نے جو ایک تامل برہمن ہیں اور بعد میں کمیونسٹ انقلابی بن گئے اپنی کتاب Land , Guns , Caste Women میں لکھتی ہیں کہ 1960 ء کے دہے میں اُن کے قدامت پسند برہمن والدین نے اُن کے پانچوں بیٹیوں کو عیسائی مشنری کے تحت چلائے جانے والے اسکولوں میں شریک کروایا اور حقیقت یہ تھی کہ وہ گھر میں عیسائیت سے نفرت کرتے تھے ۔ ایک طرف عیسائیت سے نفرت دوسری طرف وہ ہمارے لئے بے شمار انگریزی ناولیں خریدا کرتے تھے تاکہ ہم لڑکیاں اعلیٰ معیاری انگریزی سیکھیں ۔ اس کے علاوہ وہ ہمیں انگریزی فلمیں دیکھنے کی اجازت بھی دیتے تھے۔ گیتا راما سوامی کے بارے میں آپ کو بتادیں کہ وہ بعد میں انگریزی اور تلگو کتابوں کی ناشر بن گئیں ۔ یہ بات بنگالی قوم پرستوں اور کمیونسٹ برہمنوں پر بھی صادق آسکتی ہے ۔ برہمنی پس منظر رکھنے والے ؍ والی کسی نے بھی دیانتدارانہ انداز میں خود نوشت سوانح حیات نہیں لکھی جیسے گیتا راما سوامی نے لکھی ہے ۔ انھوں نے اس خود نوشت سوانح حیات میں برہمن ازم کی باطنی حقیقت کو پوری دیانتداری اور سچائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
بہرحال امیت شاہ اس منافقت کو ہندوستانی ہندوتوا قوم پرست نظریہ کے طورپر پھیلانا چاہتے ہیں ۔ یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ دلتوں ؍ شودروں ؍ قبائیلیوں کو اس عالمیانہ دنیا میں غلام بناکر رکھا جائے ۔ اس سے قبل بھی برہمن دانشوروں نے اس قسم کے مادری زبان کے نظریئے کو عام لوگوں کیلئے پیش کرنے کی روش اختیار کی تھی جبکہ وہ اپنی اولاد کو عیسائی مشنریز کے تحت چلائے جانے والے انگریزی میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلایا کرتے تھے ۔ جب ہندوتوا نواز پرائیویٹ انگریزی میڈیم اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو موجودہ آر ایس ایس ؍ بی جے پی حکومت نے عیسائی مشنری اسکولوں کو ستانا شروع کردیا تاکہ وہ اسکولس بند ہوجائیں یا عیسائی مشنری اپنے اسکولوں کو بند کرنے پر مجبور ہوجائے ۔