آر ایس ایس نے کیا ملک کی آزادی کیلئے کوئی قربانی دی ؟

   

رام پنیانی
آر ایس ایس کے قیام کے 100 سال کی تکمیل پر وزیراعظم نریندر مودی نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی زبردست تعریف و ستائش کی اور اس کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملادیئے۔ مودی کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس نے ملک کی آزادی میں غیرمعمولی قربانیاں دیں اور کئی مقامات جیسے چمور میں آر ایس ایس نے ایک احتجاج کا اہتمام بھی کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ قومی تعمیر میں آر ایس ایس کا زبردست کردار رہا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آر ایس ایس کے بارے میں مودی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور انہوں نے سنگھ پریوار کی اس سرپرست تنظیم کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس کے پیچھے کارفرما حقیقی وجوہات کیا ہیں؟ تحریک آزادی دراصل مشترکہ و متحدہ ہندوستانی قوم پرستی تھی اور اس کا منبع و مرکز مشمولیاتی تھا۔ مسلم فرقہ پرست ایک علیحدہ مسلم ملک اور ہندو فرقہ پرست ایک ہندو ملک کیلئے جدوجہد کررہی تھیں، مثلاً آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا ہندو ملک کے حق میں تھیں۔ ساورکر اس وقت آر ایس ایس کا حصہ نہیں تھے۔ وہ ہندوتوا اور ہندو ملک کے نظریہ کے سرپرست اور اس کا سرچشمہ تھے۔ وہ آر ایس ایس کے لیڈران کی بڑی حد تک رہنمائی کررہے تھے۔ انگریزی سامراج سے معذرت خواہی کرتے ہوئے انڈومان سے اور پھر رتناگری جیل سے رہائی پائی۔ ساورکر نے کبھی بھی تحریک آزادی کی تائید نہیں کی بلکہ اس کے برعکس وہ انگریزوں سے ماہانہ 60 رو پئے وظیفہ حاصل کررہے تھے (جو آج کے حساب سے 4 لاکھ روپئے بنتے ہیں)۔ ساورکر نے جدوجہد آزادی میں حصہ تو نہیں لیا لیکن انگریز فوج میں اپنی ذہنیت سے اپنے نظریات کے حامل لوگوں کی بھرتیاں کروانے میں مدد کی۔ ہیڈگوار جو آر ایس ایس کے پہلے سرسنچالک تھے، تحریک ِ خلافت میں حصہ لیا اور ایک سال قید میں رہے۔ آر ایس ایس کے قیام کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ آر ایس ایس کے پیچھے کارفرما اذہان و قلوب مسولینی اور ہٹلر سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ان لوگوں کی قوم پرستی، دوسرے ہندوستانیوں کی قوم پرستی سے بالکل مختلف تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے جب 25 جنوری 1930ء کو قومی پرچم لہرانے کی کال دی۔ ہیڈگوار نے بھی پرچم لہرانے کی کال دی لیکن وہ پرچم ترنگا یا قومی پرچم نہیں تھا بلکہ زعفرانی پرچم تھا جس سے سارے ہندوستانی اچھی طرح واقف ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آر ایس ایس نے جو قوم پرستی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتی، ہمارے ملک کے قومی پرچم کو قبول کرنے اور ماننے سے انکار کردیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ آر ایس ایس کی 100 ویں یوم تاسیس کے موقع پر مودی حکومت کی جانب سے جاری کردہ 100 روپئے کے یادگار سکہ پر جہاں بھارت ماتا کی تصویر ہے، اس میں بھارت ماتا کے ہاتھ میں زعفرانی پرچم ہے۔ ترنگا نہیں حالانکہ ترنگا کو ملک کے دستور نے قبول کیا اور حکومت نے اسے 15 اگست 1947ء کو پہلے یوم آزادی کے پرمسرت موقع پر لہرانے کا منصوبہ بنایا اور ملک بھر میں ترنگا لہرایا گیا۔ آر ایس ایس اس کے نظریات تحرییک آزادی سے اس کی دوری اور انگریز سامراج کے تئیں اس کے نرم رویہ پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز اسکالر شمس الرحمن اس بارے میں لکھتے ہیں کہ آر ایس ایس نے اپنے انگریزی ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ کے شمارہ مورخہ 14 اگست 1947ء میں قومی پرچم یعنی ترنگا کی توہین کرتے ہوئے لکھا کہ ہندوؤں کی جانب سے اسے کبھی عزت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی قبول کیا جائے گا کیونکہ خود لفظ 3 ایک برائی ہے۔ اس عدد کو برا سمجھا جاتا ہے اور ایک ایسا پرچم جو تین رنگوں پر مشتمل ہو، یقینا ایک خراب نفسیاتی اثر پیدا کرے گا اور یہ ملک کیلئے مضر ہے۔ جہاں تک ہیڈگوار کے نمک کی ستیہ گرہ میں حصہ لینے کا سوال ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہیڈگوار نے اسے اپنی تنظیم کو وسعت دینے اور جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے مجاہدین آزادی کو راغب کرنے کیلئے نمک ستیہ گرہ میں شرکت کی۔ اس کیلئے ہیڈگوار نے سرسنچالک کے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور جیل گئے اور جیل سے واپسی پر سرسنچالک کے عہدہ پر دوبارہ فائز ہوگئے۔ اس مدت کے دوران انہوں نے دوسروں پر نمک ستیہ گرہ میں حصہ نہ لینے کیلئے زور دیا چنانچہ آر ایس ایس نے بحیثیت ایک تنظیم انگریزوں کے خلاف کسی بھی تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ 1942ء کی ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘‘ کے معاملے میں کئی دعوے اور ان دعوؤں کا کھوکھلاپن آشکار ہوا۔ اٹل بہاری واجپائی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ 1998ء کے عام انتخابات کے موقع پر واجپائی نے ووٹ حاصل کرنے کی خاطر ایک اپیل جاری کی۔ انہوں نے لکھا کہ وہ نہ صرف شاکھا سطح پر آر ایس ایس کیلئے کام کرتے رہے بلکہ تحریک آزادی میں بھی حصہ لیا۔ اس وقت جیسا کہ واجپائی آر ایس ایس کا حصہ تھے اور اسکول ؍ کالیجس بند تھے۔ 27 اگست کو دوپہر 2 بجے کاکوا المعروف لیلادھر اور ماہوان الاآئے اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے ان سے جنگلات سے متعلق مدون قانون توڑنے کی اپیل کی۔ اس موقع پر 200 احتجاجی دفتر جنگلات گئے۔ مَیں (واجپائی نے) اپنے بھائی کے ساتھ ہجوم کو فالو کیا اور ناٹشپور فاریسٹ آفس پہنچے۔ میرا بھائی نیچے ٹھہر گیا اور باقی دوسرے لوگ اوپر گئے، میں دوسرے کسی فرد کا نام نہیں جانتا تھا۔ سوائے کاکوا اور ماہوان کے جو وہاں موجود تھے۔ گولوالکر اس وقت آر ایس ایس کے سرسنچالک تھے۔ 1942ء میں بھی کئی لوگوں کے دِلوں میں مضبوط جذبات تھے۔ آر ایس ایس قائدین کے مطابق ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنے عہد میں ملک کی آزادی کی بات کی اور اپنے مذہب و ثقافت کا دفاع کرتے ہوئے اس کے ذریعہ ملک کی آزادی کی بات کی۔ جبکہ اس کے عہد میں ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کرنے کا کوئی حوالہ نہیں۔ تحریک آزادی سے آر ایس ایس کی دُوری سے متعلق گولوالکر نے جو وضاحت کی ہے، جسے ان کا طویل قول بھی کہا جاتا ہے، اس میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں وقفہ وقفہ سے جو صورتحال پیدا ہورہی تھی، اس کے نتیجہ میں ذہن میں کچھ بے چینی تھی۔ 1942ء میں بھی اس قسم کی بے چینی دیکھی گئی۔ اس سے پہلے 1930-31ء کی تحریک میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اس وقت کئی دوسرے لوگ ڈاکٹرکے بی (ہیڈگوار) کے پاس گئے اور اس وفد نے ڈاکٹر ہیڈگوار سے درخواست کی کہ یہ تحریک ملک کو آزادی دے گی اور آر ایس ایس یا سنگھ کو اس معاملے میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔ اس وقت جب ایک شخص نے ڈاکٹر جی سے یہ کہا کہ وہ جیل جانے کیلئے تیار ہے تب ڈاکٹر جی نے جواب دیا یقیناً جاؤ لیکن تمہارے خاندان کا خیال کون رکھے گا؟ اس نوجوان نے جواب دیا میں نے اپنا بندوبست کر رکھا ہے کہ نہ صرف میرے خاندان کے اخراجات دو سال کیلئے کافی ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر جرمانے بھی ادا کئے جاسکتے ہیں تب ڈاکٹر جی نے کہا کہ اگر آپ کے پاس اس قدر وسائل ہیں تو پھر دو سال تک سنگھ کیلئے خدمات انجام دینے آجاؤ، گھر واپس ہونے کے بعد وہ جیل گیا اور نہ ہی سنگھ کی خدمات انجام دینے واپس آیا۔ گولوالکر کہتے ہیں کہ اس وقت بھی سنگھ کا کام حسب معمول جاری رہا لیکن سنگھ کے والینٹرس کے ذہنوں میں اتھل پتھل مچی رہی۔ بہرحال مودی نے آر ایس ایس کی جو تعریف کی، وہ حقیقت سے بعید ہے۔ آر ایس ایس نے ہندو ملک کیلئے کام کیا، اس کا تحریک آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں۔