رام پنیانی
سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے سابق معاون سدھندرا کلکرنی نے ’’بھارت جوڑو مہم‘‘ سے متعلق اپنے مضمون میں جو ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی اشاعت مورخہ 12 ستمبر میں شائع ہوا، یاترا کا خیرمقدم کرتے ہوئے اُسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یاترا ہندو روحانیت پر مبنی نہیں ہے۔ ان کے مطابق ہندو روحانیت دراصل ہندوستانی اتحاد کی بنیاد، اس کی اساس ہے۔ انہوں نے ہندو روحانیت کو مقبول بنانے کیلئے آر ایس ایس کی بھی تعریف و ستائش کی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’بھارت جوڑو‘‘ کیلئے سوامی وویکانند کی بنیادی سمجھ روحانیت تھی اور اس کا اصل ماخذ یا بنیاد ہندوازم تھا۔ سدھیندرا کلکرنی شاید یہ بھول گئے ہیں کہ سوامی وویکانندا کے ہندوستان کی بنیاد اس کی جڑ ’’ہندوستان میں اسلامی جسم اور ویدک ذہن ہے‘‘ جیسا نظریہ ہے۔ مادر ہند دراصل مختلف مذاہب کے تنوع پر مبنی ہے اور یہی جذبہ اس کی تشکیل میں شامل تھا۔ کلکرنی نے اپنے مضمون میں سوامی وویکانند کے نظامِ ذات پات کے خاتمہ اور خاتمہ غربت کا جذبہ (جوان کے تصور دری درانائن میں پایا جاتا ہے) اسے یکسر فراموش کردیا، حالانکہ سوامی وویکانندا نے نہ صرف ہندوستان کی مذہبی تنوع کی بھرپور تائید و حمایت کی تھی بلکہ ذات پات کے نظام اور غربت کے خاتمہ پر ہمیشہ زور دیا۔ کلکرنی نے اپنے مضمون میں آر ایس ایس کی بہت تعریف کی لیکن سنگھ پریوار کی تعریف کرتے ہوئے وہ پوری طرح انصاف نہیں کرسکے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آر ایس ایس پرچارکوں اور سوئم سیوکوں نے ہندوستان کے اتحاد کے تہذیبی و روحانی وسائل کو عزت و احترام بخشنے اور اسے مقبول عام بنانے کیلئے بہت کام کیا۔ اور اس معاملے میں کانگریس قائدین آر ایس ایس پرچارکوں اور سیوکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر دیکھا جائے تو گاندھی جی ہندوستانی روحانیت کا ایک بہترین نمونہ تھے۔ ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور اس کے ورثہ کی بنیادوں سے متعلق گاندھی جی کی جو سوچ و فکر اور سمجھ تھی، اس کا خاکہ اس اقتباس میں یوں بیان کیا گیا ہے’’ہندوستان میں جس کی تشکیل کیلئے میں نے زندگی بھر کام کیا، ہر شخص کو بلالحاظ مذہب مساویانہ درجہ یا موقف حاصل ہے، جہاں تک ریاست کا سوال ہے، ریاست مکمل طور پر سکیولر ہونے کی پابند ہے اور مذہب قومیت کا امتحان نہیں ہے بلکہ مذہب انسان اور خدا کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے اور مذہب تو ہر شخص کیلئے اس کا اپنا نجی معاملہ ہوتا ہے۔ اسے قومیت کے ساتھ نہیں ملایا جانا چاہئے۔ (گاندھی جی نے ان خیالات کا اظہار گریجن کی اشاعت مورخہ 1947ء میں شائع مضمون میں کیا) ان کے مطابق عیسائیت، یہودیت کے ساتھ ہندومت اس کی شاخیں ، دین اسلام اور زرتشتی مذہب (ہندوستان کے ) زندہ عقیدے (مذاہب) ہیں۔
ہندوستان سے متعلق آر ایس ایس کا ویژن سوامی وویکانندا اور گاندھی کے ویژن کے بالکل متضاد ہے اور تمام سطحوں پر پوری طرح خارجی ہے ۔ وہ بیانیہ اور اسکول جنہیں ہندوستان کی اکثریت نے برقرار رکھا ہے۔ جہاں تک ہندوستان کی عظمت رفتہ کا سوال ہے، یہ تحریک آزادی متوازی چلتی رہی اور جیوتی راؤ پھولے، ساوتری بائی پھولے سے لے کر امبیڈکر تک سماجی اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔
گاندھی جی نے 1933ء میں چھوت چھات کے خلاف یاترا نکالی اور وہ یاترا ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ کے عمل کا ایک اہم جز تھی، اس کے برعکس آر ایس ایس اور اس کے کارکن اس ’’سنہرے ماضی کے نغمے گارہے ہیں جبکہ منو سمرتی ایک قانون تھا اور اس کے نتیجہ میں ان لوگوں (آر ایس ایس والوں) نے ایک طویل مدت تک دستور ہند کی مخالفت کی۔ ہاں کوئی بھی سدھیندرا کلکرنی کے پیش کردہ اس نکتہ کو ضرور تسلیم کرتا ہے کہ کانگریس نے ہندوستانی دستور اور سکیولر اقدار کی راہ پر چلتے ہوئے کئی ایک غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ یہ سکیولر اقدار تحریک آزادی کے دوران منظر عام پر آئے، لیکن اب بھی یہ کہنا کہ اس نے ہندوستان کے مفادات کو نظرانداز کیا ہے۔ ایسے مسائل ہیں جس نے ’’اخوت‘‘ کو نقصان پہنچایا حالانکہ یہ وہی اخوت ہے جسے تحریک آزادی میں بڑی مشکل سے قائم کیا گیا تھا۔ ہمارا دستور ایک ایسی نمائندہ دستاویز ہے جس کا مسودہ تمام مذاہب کے لوگوں مل کر تیار کیا تھا اور یہ دستور سرزمین ہند پر فروغ دی گئی سکیولر پالیسیوں کا بہترین اظہار ہے اور یہ وہ پالیسیاں ہیں جو ہندوستانی سکیولرازم کی بنیاد پر ایکس یا وائی کو علیحدہ نہیں کرتی ، الگ تھلگ نہیں کرتی۔ کلکرنی نے کانگریس پر الزام عائد کیا کہ وہ صرف اور صرف ووٹ بینک سیاست کی خاطر مسلمانوں کی جانب سے مخالف سکیولر، بالادستی اور علیحدگی پسندی کی اسلامی تشریح کی مخالفت نہیں کرتی۔ اگر مسلمانوں کا ایک گوشہ اسلام کے علیحدگی پسند ورژن کو پیش کرتا ہے، اسی طرح ہندو مہا سبھا، آر ایس ایس نے بھی علیحدگی پسندی سے متعلق ہندوازم کا ورژن پیش کیا، مسلم لیگ نے اسلام۔ پاکستان کا علیحدگی پسند ورژن پیش کیا۔ ہندو مہا سبھا۔ آر ایس ایس نے بھی ہندو قوم ہندو راشٹر کے طور پر ہندوازم کا ورژن پیش کیا۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلم لیگ نے علیحدگی پسندی سے متعلق اسلام کا جو ورژن پیش کیا، اس کی مسلمانوں کی اکثریت نے تائید و حمایت نہیں کی۔ اسی طرح علیحدگی پسندی سے متعلق ہندوازم کے ورژن کو ہندوؤں کی اکثریت نے قبول نہیں کیا۔ کلکرنی جیسے لوگوں کو اللہ بخش سومرو کی آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مومن کانفرنس کے کام کا جائزہ لینا چاہئے کہ جنہوں نے تقسیم اور پاکستان کے مطالبہ کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ اس گوشہ نے دراصل مسلمانوں کی اکثریت، قومی تحریک کی نمائندگی کی ہے اور اس کی ہندوؤں کی اکثریت کی تائید کی۔ یہ وہ ہندو ہیں جنہوں نے ہندو ملک کے تصور یا نظریہ کی تائید نہیں کی۔ خود کانگریس میں مولانا آزاد، خان عبدالغفار خان اور دوسرے کئی ایسے بلند قامت مسلم رہنما تھے جنہوں نے مسلم لیگ کی ریاست اور تقسیم کے مطالبہ کی شدت سے مخالفت کی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انگریزی سامراج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو یعنی ’’بھارت توڑو‘‘ (ہندوستان کی تقسیم) آپریشن ملک کی تقسیم کا تکلیف دہ مرکزی عنصر تھا۔ گاندھی اور مولانا آزاد نے ہندو علیحدگی پسندی (ہم ایک ہندو ملک ہے) کی سخت مخالفت کی۔ یہ مہم ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے چلائی تھی۔ اسی طرح گاندھی اور مولانا آزاد تھے جنہوں نے مسلم لیگ کی مہم کی بھی شدت سے مخالفت کی ۔
کلکرنی اپنے مضمون میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہمیں ایک شخص کی آمریت سے خطرہ ہے۔ انہوں نے سچ کہا ہے لیکن انہیں یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ جب کبھی نسلی قوم پرستی اور وہ بھی آر ایس ایس کی جانب سے فروغ دی گئی، نسلی قوم پرستی کی بات آتی ہے تو آمریت اس پر چلتی ہے۔ کلکرنی نے مسلمانوں میں اصلاحات کی بات بھی کی ہے لیکن اقلیتوں کے خلاف تشدد ان سے امتیازی سلوک کی صورت میں اصلاحات مشکل بن جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک ایسے وقت جبکہ مسلمانوں (بلقیس بانو) کے زانیوں اور اس کے ارکان خاندان کے قاتلوں کے مقدمات واپس لے کر انہیں عام معافی دی جاتی ہے، ان کی گلپوشی کی جارہی ہے، مٹھائی کھلاتے ہوئے ان کا استقبال کیا جارہا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں میں اصلاحات کو کیسے فروغ دیا جائے۔ صرف ہندو روحانیت کو ہندوستان سکیولرازم کی کلید کہہ کر کلکرنی جیسے لوگ اخوت یا بھائی چارگی کو فروغ نہیں دیں گے۔ یہ پوری طرح کثرت میں وحدت کے متضاد ہے جو تحریک آزادی کی بنیاد تھی۔ نہرو نے اسے گنگا جمنی تہذیب کا خوبصورت نام دیا۔ ایسی تہذیب جو ہم ہندوستانیوں کو متحد کرتی ہے، کبیر اور حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی تعلیمات مضبوط بندھن میں باندھے رکھتی ہے۔ ’’بھارت جوڑو‘‘ کوششوں میں گاندھی اور مولانا آزاد جیسی شخصیتوں کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے اور ان جیسے لوگوں کو ہماری رہنمائی کرنی چاہئے۔ خاص طور پر ’’بھارت جوڑو‘‘ کیلئے ہماری مدد کرنی چاہئے۔