آر ایس ایس کو خود محاسبہ کی ضرورت

   

رام پنیانی
حال ہی میں 5 ممتاز ہندوستانی شخصیتوں نے آر ایس ایس سرسنچالک (سربراہ) موہن بھاگوت سے ملاقات کی۔ ان میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق صحافی شاہد صدیقی اور مشہور کاروباری شخصیت سعید شروانی شامل ہیں۔ نپور شرما ایپی سوڈ کے پیش نظر مسلم برادری میں پائے جانے والے احساس عدم تحفظ کے چلتے ان شخصیتوں نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ بھاگوت سے ملاقات اور بات چیت کرنے والی یہ شخصیتیں کسی بھی طرح مسلمانوں کے نمائندے ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ہاں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت انہیں حاشیہ پر لانے کی کوششوں، مسجدوں اور مدرسوں پر بلڈوزر چلائے جانے کے واقعات پر مسلمانوں میں پائی جانے والی برہمی کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ پہلے ان لوگوں نے بھاگوت کو مکتوب روانہ کیا اور اس کے ایک ماہ بعد انہیں آر ایس ایس سنچالک نے ملاقات کا وقت دیا۔ اس ملاقات کے بعد موہن بھاگوت نے دہلی کی ایک مسجد اور مدرسہ کا دورہ کیا۔ موہن بھاگوت سے ملاقات میں 5 مسلم شخصیتوں نے اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ مسلمانوں کو ’’جہادی‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔ جواب میں موہن بھاگوت کا کہنا تھا کہ ہندوؤں کو جب ’’کافر‘‘ کہا جاتا ہے یا پھر وہ جب گائیوں کو ذبح ہوتے دیکھتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ گائے ہندوؤں کیلئے مقدس ہے۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق ان پانچ مسلم شخصیتوں نے آر ایس ایس سربراہ کو سمجھایا کہ لفظ ’’کافر‘‘ ہندوؤں کیلئے مخصوص نہیں ہے اور وہ مسلم برادری پر زور دیں گے کہ وہ ہندوؤں کیلئے لفظ ’’کافر‘‘ کا استعمال نہ کریں۔ ان لوگوں نے یہ بھی پیشکش کی کہ جہاں تک وہ سمجھتے اور جانتے ہیں ملک میں ذبیحہ گاؤ پر مکمل پابندی ہے اور اگر قومی سطح پر ایسا قانون ہے تو تمام کو اس قانون کی پاسداری کرنی چاہئے (پتہ نہیں ان لوگوں نے بھاگوت سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ آر ایس ایس اور وہ خود گاؤکشی پر امتناع کی بات کرتے ہیں لیکن گوا، شمال مشرقی ریاستوں وغیرہ میں بیف کے استعمال پر وہ خاموش کیوں اختیار کرتے ہیں)۔ ایس وائی قریشی نے بھاگوت کے اس شبہ بلکہ غلط فہمی کو دُور کرنے کی بھی کوشش کی کہ مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں (قریشی کی انگریزی کتاب “The Population Myth”) نے اس غلط فہمی بلکہ ہندوؤں میں پائے جانے والے تاثر کو ختم کردیا کہ ہندوستان میں جلد ہی ہندو اقلیت میں آجائیں گے۔ یہ بات سامنے آئی کہ موہن بھاگوت، ایس وائی قریشی کی کتاب کا جائزہ لیں گے اور سنگھ پریوار اور دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کو کتاب کے ذریعہ دیا گیا پیغام پہنچائیں گے۔
جہاں تک ان مسلم شخصیتوں اور آر ایس ایس سربراہ کا سوال ہے، بات چیت کیلئے ان تمام کی ستائش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج ملک کو مذاکرات کی بہت ضرورت ہے۔ امید ہے کہ بھاگوت ’’ہندو خطرہ میں ہیں‘‘ جیسا تاثر ختم کریں گے کیونکہ ہندوؤں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوؤں کی بہ نسبت مسلمانوں کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مسلمانوں میں جملہ بالیدگی کی شرح گرتی جارہی ہے اور اس بات کا انکشاف نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں کیا گیا ہے۔ جہاں تک حقیقی مذاکرات کا سوال ہے، حقیقی مذاکرات وہ ہیں جہاں ایک فریق دوسرے فریق کے دلائل پر سنجیدگی سے غور کرے اور اگر ہوسکے تو اس پر اپنے موقف میں تبدیلی لائے۔ یہ وہ نتیجہ ہے جو اس میٹنگ سے کوئی بھی توقع کرسکتا ہے۔
ہندوستانی مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ آر ایس ایس اور آر ایس ایس کے سربراہ ہی ہیں جو ہندوتوا اور ہندو قوم پرستی سیاست کا مرکز ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسائل کے حل میں صرف ہندو کیلئے اقدامات کئے جائیں بلکہ ہندو مسلم کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئے ۔ جہاں تک لفظ ’’کافر‘‘ کا سوال ہے ، لفظ ’’کافر‘‘ ان لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جو مومن اور مسلمان نہیں ہوتے۔ مومن اور مسلمان کو ایمان والے کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہئے۔ جہاں تک بیف کا سوال ہے، جس کے بارے میں بھاگوت نے بات کی، اس مسئلہ پر کیا ، بھاگوت اس امر کی وضاحت کریں گے کہ کیرلا، گوا اور شمال مشرقی ریاستوں میں یہ ایک مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ کیونکہ ایک مرکزی وزیر کرن رجیجو یہ کہتے ہیں کہ وہ بیف کھاتے ہیں۔ کیرلا سے لوک سبھا نشست کیلئے مقابلہ کرنے والے ایک بی جے پی امیدوار رائے دہندوں سے یہ وعدہ کیوں کرتے ہیں کہ اگر وہ منتخب ہوتے ہیں تو انہیں (ووٹروں) کو اچھے سے اچھا بیف فراہم کریں گے۔ موہن بھاگوت اور مسلم دانشوروں کے درمیان مذاکرات میں جو بڑا مسئلہ زیربحث نہیں آسکا، وہ مسلمانوں میں عدم تحفظ کے باعث بنے سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون)، این آر سی، بلڈوزر کی سیاست (جو چند ریاستوں میں زوروں پر ہے) اور صرف مسلمانوں کیلئے قوانین میں ترمیم سے متعلق بی جے پی قائدین کے مطالبات و اقدامات رہے۔ اگر ہم اس ملاقات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ بھاگوت کہتے ہیں کہ مسلمان اور ہندوؤں کا ڈی این اے ایک ہی ہے اور ہندوتوا مسلمانوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اس کے برعکس ساورکر نے واضح طور پر کہا کہ ہندوستان ان لوگوں کا ہے جن کیلئے یہ پتر بھومی اور مقدس زمین ہے۔ آر ایس ایس اور اس کے بانیوں نے ہمیشہ سے یہی کہا ہے کہ اسلام اور عیسائیت بیرونی مذاہب ہیں۔ ایسے میں کیا بھاگوت اس تاثر کو اور اس سے پیدا شدہ خدشات کو ختم کرسکتے ہیں؟ مخالف مسلم تشدد کا دوبارہ عود کرآنے کا سب سے اہم پہلو نفرت ہے جو شاکھی بدھکس (آر ایس ایس کی شاخوں کے دانشورانہ اجلاس میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے) اور بتایا گیا ہے کہ رانا پرتاپ، شیواجی وغیرہ ہندو ہیرو ہیں۔ انہیں مسلم دشمن کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، ان کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے انہیں عظیم بنا دیا گیا۔ ان کے برعکس مسلم بادشاہوں کو ایسے پیش کیا گیا جیسے وہ ہندوؤں کے دشمن تھے اور انہیں جان بوجھ کر بدنام کیا گیا۔ اسی تاثر کو استحکام بخشنے کیلئے کئی مسائل اٹھائے گئے یا جان بوجھ کر پیدا کئے گئے جن میں رام مندر مسئلہ کو ایک ایسا بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا گیا کہ اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں۔ بابری مسجد رام مندر ملکیت کا فیصلہ آچکا ہے۔ اس کے باوجود رام مندر مسئلہ ہنوز ایک ایسا مسئلہ بنا ہوا ہے جس کے نام پر یعنی مندر ۔ مسجد کے نام پر عوام کو ایک دوسرے سے دور کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ہی اب کاشی (وارناسی) اور متھرا میں مندر ۔ مسجد مسئلہ پیدا کیا گیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مندر۔ مسجد مسئلہ پر سیاست کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے اور جان بوجھ کر کئی ایک تنظیمیں اس پروپگنڈے میں مصروف ہیں کہ معاشرے کی تمام برائیوں کیلئے مسلم حملہ آور ذمہ دار ہیں۔ مندروں کا انہدام، زبردستی تبدیلی مذہب کیلئے بھی مسلم حملہ آور ذمہ دار ہیں اور ان ہی موضوعات کو وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد بناتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک میں نفرت کی لہر پائی جاتی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں غلط فہمیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ اگر ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو مذاکراتی عمل گاندھیائی طریقہ کار ہے۔ قومی تحریک کے اقدار نے ہی ہندوستان کو ایک قوم بتایا۔ ہم ایک سکیولر، جمہوری ملک میں ہیں جہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو احترام و باوقار انداز میں جینے کا حق حاصل ہے۔ دستور میں جو حقوق دیئے گئے ہیں، وہ صرف زبانی یا کاغذ کی حد تک محدود نہیں بلکہ عملی طور پر کارکرد ہیں۔ بہرحال آر ایس ایس ایک بہت بڑی تنظیم ہے۔ اس نے دلتوںو قبائیلیوں کی کئی تنظیمیں بنائی۔ مسلم راشٹریہ منچ بھی قائم کی لیکن ملک کے مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ آج آر ایس ایس کی عالمی سطح پر ایک بالادستی والی تنظیم کے طور پر شبیہ بنی ہے جہاں اقلیتیں غیرمحفوظ ہیں اور ان کیلئے اپنی شناخت کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور وہ (آر ایس ایس) اس طرح کی سیاست کی بنیاد ہے۔ اگر آر ایس ایس مذاکرات اور مصالحت سے متعلق سنجیدہ ہے تو پھر اُسے اپنے محاسبہ کی ضرورت ہے۔