آر ایس ایس کو دستور میں بڑی تبدیلیوں کا انتظار بی جے پی حکومت پر عملدرآمد کی ذمہ داری

   

پی چدمبرم
وزیراعظم مودی کو ایسے مسائل اُٹھانا بخوبی آتا ہے جو عوام کی توجہ منتشر کردیں گے۔ اُن کو اس حقیقت کا یقین ہوتا ہے کہ اپوزیشن اپنے ردعمل میں مختلف موقف والی آوازوں میں بولیں گے اور ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ ناقابل رد حقائق یا منطق کے ساتھ رائے دیں گے۔ پلوامہ کی مثال خوب ہے۔ ہر اعتبار سے انٹلیجنس کی زبردست ناکامی ہوئی۔ گورنر جموں و کشمیر نے اس کا اعتراف کیا جب انھوں نے 15 فبروری 2019ء کو کہا تھا: ’’ہم دھماکو مادوں سے لدی گاڑی کی ہائی وے پر نقل و حرکت کا پتہ چلاسکے اور نہ اسے روک سکے… یہ حقیقت کہ ہمیں اُن (مقامی عسکریت پسندوں) میں فدائین کی موجودگی کا علم نہ تھا وہ بھی انٹلیجنس ناکامی کا حصہ ہے۔‘‘ کوئی بھی حکومت اس طرح کے حملے کے بعد خاموش نہیں رہ سکتی۔ بالاکوٹ اس کا جواب رہا، پاکستان ایئر فورس پوری طرح تیار نہیں تھی، ہندوستانی فضائیہ نے اپنے ٹارگٹس کو نشانہ بنایا، اور پاکستان نے ایک آئی اے ایف طیارہ مار گرایا۔ شبہات حملے کے تعلق سے نہیں بلکہ ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں ہیں۔ لہٰذا، ہمیں کیا ملا؟… پلوامہ میں تشویشناک ناکامی اور بالاکوٹ میں نمایاں کامیابی۔
توجہ کو منتشر کردیا جائے
پلوامہ اور بالاکوٹ کی مسٹر نریندر مودی نے کامیابی سے آمیزش کی۔ کوئی بھی جو پلوامہ میں انٹلیجنس کی ناکامی (اور 40 جوانوں کی دردناک موت) پر سوال اٹھائے، اسے شرپسندی کے ساتھ ایسا باور کرایا گیا کہ جیسے وہ بالاکوٹ میں آئی اے ایف کی کامیابی پر سوال اٹھا رہا ہے، اور اس پر قوم دشمن کا لیبل لگا دیا گیا۔ اپوزیشن کم از کم ہندی پٹی والی ریاستوں میں اس انتخابی حکمت عملی میں چالاکی کا جواب دینے اور عوام کو پلوامہ ناکامی اور بالاکوٹ کامیابی کے درمیان فرق کو سمجھانے سے قاصر رہا۔ مسٹر مودی نے عوام کو خوبی سے منتشر کردیا اور انتخابی موضوع کو بگڑتی معیشت، بے روزگاری، کسانوں کی زبوں حالی، فرقہ وارانہ منافرت، لنچنگ، وغیرہ سے ہٹادیا۔
غیردستوری سوچ
کسی بھی وفاقی پارلیمانی جمہوریت میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کی مجلس وزراء ترتیب وار عوامی ایوان ]آرٹیکل 75(3) [ اور قانون ساز اسمبلی ] آرٹیکل 164(2) [ کے تئیں اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوتی ہے۔ مقننہ کے تئیں ’ذمہ داری‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ مجلس وزراء کو مقننہ میں اکثریت کا اعتماد ہر دن اور ہر وقت حاصل ہونا ضروری ہے۔ جس لمحہ مجلس وزراء اکثریت کی حمایت سے محروم ہوجائے، اسے اقتدار چھوڑ دینا چاہئے۔ ایسا خیال کہ اس طرح کی مجلس وزراء کوئی متبادل مجلس وزراء اکثریت کی تائید ثابت کرنے تک عہدہ پر برقرار رہ سکتی ہے، پارلیمانی جمہوریت کے بنیادوں اُصولوں کے مغائر ہے۔ فرض کیجئے کسی حکومت کو عوام نے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کردیا، لیکن کوئی دیگر شخص مقننہ میں اکثریت کی حمایت جٹا نہیں سکتا ہے، کیا شکست خوردہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اپنے عہدہ پر برقرار رہ سکتا ہے؟ ایسا عمل پارلیمانی بے حرمتی ہوگی۔ ایسی صورت میں وسط مدتی چناؤ واحد واجبی جواب ہے۔
پارلیمانی جمہوریت کیلئے اسی طرح کی مساوی بے حرمتی ایسی تجاویز ہیں کہ کسی قانون ساز اسمبلی کی میعاد میں مقررہ مدت کے باوجود توسیع یا کٹوتی کی جاسکتی ہے۔ عوام امیدواروں کو مقررہ میعاد کیلئے منتخب کرتے ہیں: اگر یہ میعاد میں توسیع یا کٹوتی کردی جائے تو عوام کی ہتک کے مترادف ہوگا۔ بلاشبہ ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کیلئے مہم کی شروعات اس جانکاری کے باوجود کی گئی ہے کہ یہ موجودہ آئین کے تحت غیردستوری ہے۔ اگرچہ اس مہم کے خاص کردار ابھی اس کا اعتراف نہیں کریں گے، لیکن اُن کا حقیقی ارادہ دستور کو تبدیل کرنا ہے۔ تبدیلی کی سمت بھی عیاں ہے: یکطرفہ، نہ کہ وفاقی؛ مضبوط تر عاملہ، کمزورتر مقننہ؛ یکسانیت، نہ کہ تکثیریت؛ مشترک شناخت، نہ کہ ہمہ رنگی کلچر؛ اور اکثریتی رائے تھوپنا، نہ کہ اتفاق رائے پیدا کرنا۔ یہ سمت صدارتی نظام حکومت کی طرف ہے۔
تبدیلیوں پر چوکسی ناگزیر
مذکورہ بالا تمام چیزیں موجودہ دستورِ ہند میں بڑے پیمانے پر ترمیم کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی دستور میں بڑی تبدیلیوں کے خیال کی مخالف نہیں کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ آر ایس ایس کی دستور ساز اسمبلی میں نمائندگی نہیں تھی، اس لئے وہ موجودہ دستور کی برتری کو قبول کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ یہ عیاں ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی اپنی مرضی کا دستور چاہتے ہیں اور One Nation, One Election کی مہم دستور میں تبدیلی کا نقیب ہے۔ وفاقی نظام حکومت کی حامل کوئی بھی قابل تقابل ملک میں قومی پارلیمان اور ریاستی؍ صوبائی مقننہ جات کیلئے بہ یک وقت انتخابات کا سسٹم نہیں ہے… نمایاں مثالیں آسٹریلیا، کناڈا اور جرمنی ہیں۔ امریکہ میں صدارتی نظام حکومت ہے اور اس لئے قابل تقابل نہیں۔ علاوہ ازیں، امریکہ میں بہ یک وقت انتخابات اور علحدہ انتخابات (ایک الیکشن ہر چار سال بعد اور ایک دیگر الیکشن ہر دو سال بعد) ہوتے ہیں۔ یہ دلیل بھی کھوکھلی ہے کہ ملک ہمیشہ انتخابی موڈ میں نہیں رہ سکتا: اس کا کیا فرق پڑتا ہے اگر چند ریاستوں میں انتخابات وقت مقررہ پر منعقد کردیئے جائیں؟ اگر کوئی ملک نام نہاد ہمیشگی والے الیکشن موڈ میں ہے تو وہ امریکہ ہے جہاں ایوان نمائندگان ہر دو سال میں منتخب کیا جاتا ہے! امریکہ کو ظاہر طور پر اس میں کچھ خرابی معلوم نہیں ہوتی ہے۔
بی جے پی کو اپنے ارادوں میں سادہ پن دکھانا چاہئے۔ اگر وہ صدارتی نظام حکومت چاہتی ہے تو کھلے طور پر کہہ ڈالے۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیجئے کہ آیا ملک کے سامنے ترجیحات اس مرحلے پر کمزور معیشت، بے روزگاری، کسانوں کی خراب حالت، فرقہ وارانہ نفرت اور لنچنگ ہیں یا اولین اگزیکٹیو پریسیڈنٹ کا انتخاب جو کابینہ اور بے اختیار پارلیمنٹ کا مطیع ہو۔