آر ایس ایس کے سو سال… بدلتا لہجہ جامد نظریات

   

رام پنیانی

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جس کا قیام 1925 میں عمل میں آیا تھا 2 اکٹوبر 2025ء کو اپنے قیام کے 100 سال مکمل کرے گی۔ جہاں تک آر ایس ایس کی سیاست کا سوال ہے ہندوتوا اس کی سیاست رہی ہے اور اس کا مقصد ہندو ملک کی تعمیر ہے۔ اس کا جو عہد ہے یعنی اس کے والینٹرس جو حلف لیتے ہیں اس میں ہندوراشٹرا کے تئیں پابند عہد ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ شاکھا (برانچ) آر ایس ایس کی بنیادی تنظیمی اکائی ہوتی ہے اور فی الوقت ملک کے کونے کونے میں اس کی شاکھائیں (برانچس) بڑی تیزی سے قائم کی جارہی ہیں۔ ان شاکھاؤں میں پہلے نوجوان لڑکے اور اب تو عام عمر کے افراد ہندوستانی کھیل کھیلتے ہیں جیسے کبڈی، کھوکھو وغیرہ۔ وہ ہندو راجاؤں جیسے چھترپتی شیواجی اور رانا پرتاپ کو ملک کیلئے ماڈل قرار دیتے ہیں۔ ان کی تعریف و ستائش میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے جبکہ مسلم بادشاہوں کو ظالم و جابر ویلن کے طور پیش کرتے ہیں اور اس طرح یہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس کے بارے میں آپ کو بتادیں کہ ملک بھر میں اس کی 83000 شاکھائیں ہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں سوئم سیوک (والینٹرس) ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں پرچارک ہیں (جن کا کام صرف پروپگنڈہ کرنا ہوتا ہے) آر ایس ایس سماجی سوچ و فکر پر اثرانداز ہوئی ہے اور مسلمانوں کے خالف شدید نفرت پیدا کی ہے اور پچھلے چند دہوں میں عیسائیوں کے خلاف بھی اس نے نفرت پیدا کی ہے۔ واضح رہیکہ تنظیم کی صدسالہ تقاریب کا آغاز اس کے سرسنچالک (سربراہ) موہن بھاگوت کے تین لکچر سیریز سے ہوا جس کا انعقاد دارالحکومت دہلی کے وگیان بھون میں 26-28 اگست 2025ء عمل میں آیا۔ بھاگوت دیگر تین میٹرو شہروں میں بھی لکچر دے رہے ہیں۔ دہلی کے وگیان بھون میں تین دنوں تک اپنے لکچرس میں ایک مرحلہ پر موہن بھاگوت نے مودی اور خود ان کی سبکدوشی سے متعلق بات کی۔ یہ دونوں جاریہ ماہ ہی اپنی عمر کے 75 سال مکمل کرنے والے ہیں (موہن بھاگوت 11 ستمبر کو اور نریندر مودی 17 ستمبر کو 75 سال کے ہوجائیں گے اور ملک بھر کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ موضوع ، موضوع بحث بنا ہوا ہیکہ آیا دونوں اپنے اپنے عہدوں سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہوں گے یا نہیں) موہن بھاگوت نے اس بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے اس قسم کے کسی بھی امکان سے انکار کیا حالانکہ کچھ دن قبل ہی انہوں نے آر ایس ایس کے ایک بزرگ لیڈر کے حوالہ سے کہا کہ شال پوشی کا مطلب آپ کو گھر واپس بھیجنا ہوتا ہے۔ موہن بھاگوت کا ان لکچر سیریز میں کہنا تھا کہ ملک میں آبادی کی شرح گھٹ رہی ہے ایسے میں ہندوستانی جوڑوں کو کم از کم 3 بچے پیدا کرنے کے اصول کو اپنانا چاہئے اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ اس خیالی خوف کا جواب دینا ہے جو مسلمانوں کی آبادی سے متعلق ہے۔ آر ایس ایس اس خوف میں مبتلاء ہے کہ ایک دن مسلمان ملک میں اکثریت بن جائیں گے۔ اس ہندوی، بھارتیہ اور سناتنا ہم معنی ہیں ان الفاظ کے پیچھے ایک مفہوم ہے یہ صرف مترادف الفاظ نہیں ہمارا ڈی این اے پچھلے 40 ہزار سال سے ایک ہی ہے۔ لفظ ہندو کی ایک طویل تاریخ ہے جب ہندو لفظ کا استعمال شروع ہوا تب یہ صرف ایک جغرافیائی شناخت تھی جو سندھ کے مشرقی حصہ کے مکینوں کیلئے استعمال ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ یہاں کی تمام مذہبی روایات جیسے برہمن ازم، ناتھ، تانترا، سیدھا اور اجوکاس کو ملا کر ہندو کو ایک مذہبی زمرہ بنادیا گیا چنانچہ گزشتہ دوسو سال سے یہ مذہبی زمرہ بہت زیادہ مضبوط ہوا اگرچہ بی آر امبیڈکر نے ریمارک کیا تھا کہ آج ہندوازم میں برہمن ازم کو برتری حاصل ہے۔ ہندو بنیادی طور پر ایک مذہبی روایت ہے اگرچہ یہ جغرافیائی روایت کے طور پر شروع ہوا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہندوازم کئی ذاتوں پر مشتمل ہے۔ وی ڈی ساورکر جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا اپنی کتاب میں ہندو کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ہندو وہ ہے جو اس زمین کو جو دریائے سندھ سے سمندر تک پھیلی ہوئی ہے پترابھومی (باپ کی سرزمین) اور پنسیا بھومی (مقدس سرزمین) سمجھتا ہے۔ موہن بھاگوت نے ہندوؤں کو چار زمروں میں تقسیم کیا۔ پہلا زمرہ ان ہندوؤں کا ہے جو خود کو ہندو سمجھتے ہیں اور اپنے ہندو ہونے پر فخر کرتا ہے۔ دوسرا زمرہ ان لوگوں کا ہے جو خود کو ہندو تو سمجھتے ہیں لیکن فخر نہیں کرتے۔ تیسرا زمرہ ان ہندوؤں کh ہے جو جانتے ہیں کہ وہ ہندو ہیں لیکن اس کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتے اور چوتھا زمرہ ان ہندوؤں کا ہے جو اپنے آپ کو ہندو نہیں سمجھتے لیکن زمینی حقائق دیکھیں تو ساورکر نے ہندو کی جو تعریف کی ہے وہی صحیح معلوم ہوتی ہے اور یہ زمینی حقائق فرقہ پرستوں نے تھوپی ہے۔ اگرچہ آر ایس ایس نظریہ ساز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوازم ایک قوت برداشت کا حامل مذہب ہے اور مشمولیاتی مذہب ہے لیکن حقیقت بہت مختلف ہے۔ موہن بھاگوت پرزورانداز میں کہتے ہیں کہ ایک ہندو وہ ہے جو اپنی راہ (اپنے مذہب) پر دوسروں کے عقائد کی مخالفت کے بناء ڈٹا رہتا ہے اور دوسروں کے عقائد و مذہب کا احترام کرتا ہے کسی کی توہین نہیں کرتا چنانچہ جو لوگ اس روایت اور کلچر کو مانتے ہیں اس پر چلتے ہیں وہ ہندو ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ آر ایس ایس سربراہ نے جس طرح ایک ہندو کی تعریف کی ہے یعنی انہوں نے بتایا کہ ایک ہندو وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے مذاہب کا احترام کرتا ہے ان کی توہین نہیں کرتا اور اپنے مذہب پر دوسروں کو تکلیف دیئے بناء چلتا ہے وہ ہندو ہمیں مہاتما گاندھی میں نظر آتا ہے جنہیں ایک ایسے شخص نے قتل کیا جس کی ابتدائی تربیت آر ایس ایس شاکھاؤں میں ہوئی۔ ہم بات کررہے ہیں ناتھورام گوڈسے کی جس نے گاندھی جی کو بڑی بیدردی سے قتل کیا۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس یہ دعویٰ کرتی ہیکہ وہ تمام ہندوؤں کیلئے ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر مردوں کی اجارہ داری ہے اور تاریخ پر اس کے جو بیانات اور موقف ہے وہ صرف اور صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر ہے۔ دوسرے مذاہب، ادنیٰ ذات اور خواتین کی عدم شمولیت (اخراج) آر ایس ایس کے نظریہ اور عمل کی سب سے اہم علامت ہے۔ مسلمان آر ایس ایس شاکھاؤں کا ایک حصہ نہیں ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس خود کو مشمولیاتی قرار دیتی ہیں لیکن وہ کس طرح دروغ گوئی سے کام لیتی ہے پارلیمنٹ میں اس کے ارکان پارلیمنٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لوک سبھا میں بی جے پی کا کوئی بھی مسلم اور عیسائی رکن پارلیمنٹ نہیں ہے۔ اس کے برعکس حکمراں جماعت کے لیڈروں سے لیکر وزیراعظم تک مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر و بیانات دیتے ہیں۔ آسام میں NRC اور CAA کے بہانہ مسلمانوں کوحق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوششوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بہار میں ایس آئی آر معاشرہ کے کمزور طبقات اور غریبوں کو جمہوری عمل سے خارج کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ غرض موہن بھاگوت اپنے تینوں لکچرس میں تمام ہندوستانیوں پر ہندو شناحت تھوپنے سے متعلق جاری آر ایس ایس ایجنڈہ کو واضح کرتے ہیں۔ ہوشیاری بلکہ مکاری کے ساتھ ہندو مذہبی شناخت کو قومی شناخت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔