آر ایس ایس کے قول و فعل میں زمین آسمان کا فرق:مایاوتی

   

بی جے پی حکومتوں میں اقلیتوں کے دلوں میں تحفظ کی فکر، ملک و سماج میں افرا تفری کا ماحول

لکھنؤ۔ بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) سربراہ مایاوتی نے پیر کو کہا کہ آر ایس ایس کے قول وفعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر چلنے والی مرکزو ریاست کے بی جے پی اقتدار میں ملک کی اقلیتوں کے دل میں سیکورٹی کی فکر گھر کر گئی ہے۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے اتوار کو غازی آبادمیں دئیے گئے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ مرکزاور اترپردیش سمیت ملک کی جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں چل رہی ہیں بی جے پی آئین کی صحیح منشا کے مطابق چلنے کے بجائے آر ایس ایس کے گھٹیا ایجنڈے پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے سماج و ملک میں معاشی شعبہ میں بھی ہر طرف بے چینی، لاقانونیت، تشدد،تناو اور افراتفری کا ماحول ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھاگوت کے ذریعہ سبھی مذاہت کے لوگوں کا ڈی این اے ایک ہونے اور ہجومی تشدد ہندتوا کے خلاف ہونے وغیرہ کی جو بات کہی گئی ہے وہ کسی کے گلے کے نیچے آسانی سے اترنے والی نہیں ہے ۔ کیونکہ آر ایس ایس و بی جے پی اینڈ کمپنی کے لوگوں اور ان کی حکومتوں کے بھی قول و فعل میں فرق سبھی دیکھ رہے ہیں۔ بی ایس پی سربراہ نے کہا کہ بھاگوت کا ملک کی سیاست کو تقسیم کی سیاست بتا کر اسے کوسنا غیر مناسب ہے جبکہ جس بی جے پی اور ان کی حکومتوں کو وہ لوگ مفاد عامہ و ملکی مفاد کی خاص پرواہ کئے بغیر ، آنکھ بند کر کے حمایت دیتے رہے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں ذات پات، سیاسی بدلے کا جذبہ، فرقہ وارانہ تشدد وغیرہ کا زہر معمولات زندگی کو درہم برہم کئے ہوئے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے بھی قول و فعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ خاص کر ذات پات، فرقہ واریت، مذہبیت وغیرہ کے معاملے میں یہ لوگ جو کہتے ہیں ،کرتے ٹھیک اس کے خلاف ہیں، جو سبھی کو معلوم ہے ۔ ان کی ایسی گھٹیا پالیسی و کاموں کی بی ایس پی سخت مخالفت کرتی رہی ہے ۔ مایاوتی نے کہا کہ آر ایس ایس کا کل کا تازہ بیا ن درحقیقت لوگوں کے لئے نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ منہ میں رام بغل میں چھوری کا مصداق زیادہ لگتاہے ۔انہوں نے کہا کہ ڈرا دھمکا کر و لالچ دے کر کسی کا مذہب تبدیل کرانا نامناسب اور غیر قانونی ہے لیکن ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس کی آڑ میں جبراََ ہندو مسلم کا کھیل کھیلنا اور پورے مسلم سماج کو شک کی نظروں سے دیکھنا یہ بھی قطعی مناسب نہیں ہے ۔ بی ایس پی نے کہا کہ یوپی کی بی جے پی حکومت کے ذریعہ ذات پات، مذہبی و سیاسی بدلے کے جذبے سے جن معاملوں میں بھی املاک ضبط و منہدم کی گئی ہیں ان میں زیادہ مسلم سماج کے لوگ متاثر ہوئے ہیں اور ان میں سیکورٹی کاخدشہ پیدا ہورہا ہے جو ٹھیک نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بی ایس پی کو اگر لگتا کہ بی جے پی حقیقت میں آر ایس ایس کے شکنجے سے نکل کر آئینی سوچ کے مطابق چل کر بہوجن سماج و سبھی مذاہب کے لوگوں کے مفاد میں کام کرتی ہے تو پھر 1995 مین ہی بی ایس پی ان کی باہری تائید ٹھکرا کر اترپردیش کی حکومت سے استعفی نہیں دیتی جبکہ اس وقت ایس پی کی ذات و ہندووادی سیاست سے تنگ آکر کانگریس، بی جے پی و دیگر سبھی مخالف پارٹیاں بی ایس پی کی حکومت کو باہر سے حمایت دے رہی تھیںاور پھر نہ ہی سال 2003 میں ان کے غلط ارادوں کو بھانپ کر بی ایس پی ان سے الگ ہوتی۔