ڈاکٹر سریش کھیرنار
حال ہی میں سماج وادی پارٹی سربراہ اور اُترپردیش کے سابق چیف منسٹر اکھلیش یادو کو جئے پرکاش نارائن کی سالگرہ تقریب کے موقع پر لکھنو میں اُن کے مجسمہ پر پھول مالا چڑھانے سے روک دیا گیا ۔اسی طرح سونم وانگ چک کو بھی دہلی کے راج گھاٹ پر مہاتما گاندھی کی سمادھی استھل پر حاضر ہونے اور بابائے قوم کو گلہائے عقیدت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ کچھ عرصہ قبل آر ایس ایس کے غنڈوں نے پونے کے نکھیل واگھلے پر حملہ کی کوشش کی ۔ اسی طرح مراٹھی میگزین چترا لیکھا کے ایڈیٹر مسٹر گیانیش مہاروا کے دفتر میں زبردستی گھس کر اُن کے بیان کیلئے معذرت خواہی کیلئے مجبور کیا گیا ۔ بہرحال ’’نربھئے بنو ‘‘ بیانر سے ان واقعات کا تعلق بہت اہم ہے اور مذکورہ واقعات نے اسے پوری طرح ثابت بھی کردیا ہے ۔ یہی نکھیل واگھلے تھے جنھوں نے اس بیانر تلے 90 کے دہے میں ممبئی میں ایسی ہی مہم چلائی تھی اور وہ مہم دھرم یوگ میگزین کے سب ایڈیٹر گنیش منتری ، مراٹھی پلے رائٹر وجئے تنڈولکر ، رتناکر شکاری ، پروفیسر پشپا بھارے اور اپنے دیگر رفقاء کے تعاون و اشتراک سے چلائی اس وقت اُن اجلاس میں سے ایک سے خطاب کیلئے خاص طورپر میں کولکتہ سے آیا تھا اور وہ میٹنگ گر گاؤں کے کیشو گور سمرتی سبھا گھر میں منعقد کی گئی تھی جب میں گرگاؤں ریلوے اسٹیشن پر اُترا اور میٹنگ میں شرکت کیلئے چلتے ہوئے جارہا تھا تب میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ میٹنگ ہال کے باہر ہزاروں لوگ جمع ہوگئے ہیں ۔ ان لوگوں نے نکھیل واگھلے کی کار پر حملہ کردیا ہے ۔ اس کے شیشے توڑ دیئے ہیں اور ایسا ہی برا حال گنیش مائتری کا ہوا ہے چنانچہ آپ کیلئے میرا مشورہ ہے کہ میٹنگ ہال جانے سے گریز کریں ۔ وہاں آپ کو نہیں جانا چاہئے جس پر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں کلکتہ سے صرف اس پروگرام میں شرکت کے لئے آیا ہوں ! ایسے میں کیا مجھے اس طرح راستے سے ہی واپس چلے جانا چاہئے ؟ اور اگر میرے دوست نکھیلے واگھلے اور گنیش مائتری بری حالت میں ہیں ؟ مجھے شرم آنی چاہئے کہ اپنی سیفٹی کے خوف سے واپس چلا جاؤں ۔ میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا بلکہ یہ میرا اخلاقی فریضہ ہے کہ اس گھڑی میں ’’نربھئے بنو ‘‘ تحریک کو مضبوط کروں ۔ یہ کہتے ہوئے میں آگے بڑھ گیا اور دیکھا کہ کیشوگور سمرتی ہال کے باہر متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک کثیرتعداد جمع ہے وہ انتہائی برہمی کی حالت میں میٹنگ کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ نعرے بلند کررہی تھیں ۔ جب میں نے ہجوم میں داخل ہونے کی کوشش کی پہلے ان لوگوں نے مجھے نیچے گرادیا اور پھر لوگوں نے مجھے لاٹھیوں سے بری طرح پیٹا ۔ رینگتے ہوئے میٹنگ ہال کے دروازے تک پہنچا اور میٹنگ ہال میں داخل ہوگیا ۔ لوگوں نے مجھے زدوکوب کے بعد میرے کپڑے بھی پھاڑ دیئے تھے ۔
میرا کھادی کا شرٹ پوری طرح پھٹ چکا تھا اور میرا جینس پتلون بھی گھٹنوں کے اُوپر تک پھٹ گیا جب میں ایسی حالت میں اسٹیج پر گیا تب منتظمین نے مجھے خطاب کی دعوت دی ، میں نے اسی حالت میں حاضرین سے خطاب کیا اور اُنھیں بتایا کہ 70 سال قبل جرمنی میں ہٹلر اور اس کے رفقاء نے اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ روا رکھا تھا اور آج ہمارے ملک ہندوستان میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) بھی وہی دہرارہی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں آر ایس ایس نازی ہٹلر کا ہندوستانی ویژن ہے ۔ ان لوگوں نے اپنے فلسفہ میں تشد د کو شامل کیا جس کے نتیجہ میں ہمیں بابائے قوم مہاتما گاندھی سے محروم ہونا پڑا اور موجودہ دور میں یہ وہی عناصر ہیں جنھوں نے ڈاکٹر نریندر دابھولکر ، پروفیسر ایم ایس گلبرگی ، کامریڈ گوئند پنسارا اور گوری لنکیش کو بڑی بیدردی سے قتل کیا ۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ فسادات کے مختلف واقعات میں مارے گئے اور وہ بھی اُن ہی لوگوں نے کیا ۔ پونہ میں جو واقعہ پیش آیا وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کیونکہ دیویندر فڈنویس اور سدھیر دیودھر نے جو بیانات دیئے وہ بھی فاشسٹ نظریات پر عمل کا اشارہ دے رہے ہیں ۔ ویسے بھی دیویندر فڈنویس اور سدھیر دیودھر آر ایس ایس کی ہی پیداوار ہیں ۔ بہرحال نکھیل واگھلے پر قاتلانہ حملہ کے باوجود حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے وہ نکھیل واگھلے کو گرفتار کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور وہ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ نکھیل واگھلے نے سستی شہرت حاصل کرنے خود پر حملہ کروایا۔
آپ کو بتادیں کہ اس فسطائی تنظیم کا 27 ستمبر کو 1925 کو دسہرہ کے دن ڈاکٹر کیشوبلرام ہیڈگوار ، ڈاکٹر بی جے منجے اور اُن کے دس تا پندرہ قریبی ساتھیوں نے قیام عمل میں لایا ۔ یہ لوگ موہائت واڑہ کے وسیع و عریض مکان کے احاطہ میں جمع ہوئے (زمینداروں کے بہت ہی وسیع و عریض مکان کو مراٹھی میں واڑہ کہا جاتا ہے ) جبکہ ناگپور میں مقامی طورپر مکان کو محل کہا جاتا ہے ۔ ابتداء میں کئی فیلڈ پروگرامس جیسے کھیل کود ، کسرت ، گانوں ، پریڈ اور ہندوستان ہندوؤں کا ہے پر مبنی گیمس کا اہتمام کیاگیا اور سب سے اہم چیز یہ تھی کہ اس تنظیم کے کارکنوں کو ’’مسلم حکمرانوں ‘‘کے دور میں ہندوؤں پر مظالم کی جھوٹی سچی کہانیاں سنائی جاتی جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ان لوگوں نے جتنا ممکن ہوسکے جھوٹ بولا ، مثال کے طورپر 1756 ء میں جنگ پلاسی کے بعد اور 1852 ء کی بغاوت کے بعد مسلم بادشاہوں اور حکمرانوں کے وفاداروں کی حکمرانی تقریباً ختم ہوگئی۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک پر انگریزوں نے زائد از 200 سال حکومت کی لیکن سنگھ کی شاکھاؤں اور سنگھ پریوار سے وابستہ دانشوروں کے حلقوں میں کبھی بھی انگریزوں کے مظالم اُن کے ہندوستان کو لوٹ لینے کے بارے میں بات نہیں کرتے جس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1947 ء سے 20 سال قبل قائم کی گئی آر ایس ایس کے بارے میں اس بات کا ایک ریکارڈ نہیں ملتا کہ اُس نے یا اُس کے کارکنوں نے ملک کی تحریک آزادی میں حصہ لیا ہو ۔
آر ایس ایس باالفاظ دیگر خود ساختہ ہندوتوا سنگھ کا جو واحد اور سب سے بڑا کارنامہ رہا ہے وہ اقلیتوں کے خلاف اس کا زہرآلود پروپگنڈا ہے ۔ کئی دیگر والینٹرس جیسے نریندر مودی ، امیت شاہ فرقہ وارانہ سیاست کررہے ہیں اور اُن کی یہ سیاست دراصل آر ایس ایس کے سو سال کا کارنامہ ہے ۔ یہ لوگ ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں جس کا سلسلہ ساری سرزمین ہند میں جاری ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ آئندہ سال یعنی 2025ء میں بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس پورے سو سال کی ہوگی ، اس لئے وہ کسی بھی صورت میں وہ گرو گولوالکر کے خود ساختہ ہندو راشٹرا قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کیلئے سارے ملک کو مذہبی خطوط پر یہ تقسیم کرنے پر کام کررہے ہیں ۔ بہرحال فرقہ وارانہ خطوط پر پہنچنے والی ذہنیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف (آرٹیکل 370) منسوخ کردیا گیا ۔ یہ لوگ ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کے منصوبہ بنارہے ہیں ، ملک میں این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون نافذ کرچکے ہیں اور اس طرح سے وہ ملک کے 30-35 کروڑ سے زائد اقلیتوں کے ساتھ اُترپردیش ، گجرات ، ہریانہ ، مدھیہ پردیش ، راجستھان اور جس کسی ریاست میں بی جے پی زیراقتدار ہے وہاں انتہائی غیرانسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہے ، مہاراشٹرا میں بھی یہی حال ہے ۔ رات کی تاریکی میں پولیس کے بھیس میں آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کی جائیدادوں کو تباہ کررہے ہیں ، مسلمانوں کی ا ملاک کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مظفرنگر تا سہارنپور ، مرادآباد تا لکھنو اور لکھنو سے الہٰ آباد اور کئی مسلم اکثریتی علاقوں جیسے اعظم گڑھ ، علی گڑھ ، کانپور ، بنارس وغیرہ میں مسلمانوں کے مکانات و دوکانات پر بلڈوزرچلائے جارہے ہیں ، اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کس قانون کے تحت یہ ظلم وزیادتی کی جارہی ہے جبکہ اسمبلی میں یوگی ادتیہ ناتھ بی جے پی حکومت کے اقدامات کا رام راجیا سے تقابل کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رام راجیا کی بجائے مجھے تو یہ راون راج دکھائی دے رہا ہے ؟
یہ لوگ فرقہ وارانہ ناچ ناچ رہے ہیں ، وہ لوگ سارے علاقہ کو فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل کرنے پر کام کررہے ہیں اور ہمارا میڈیا اس رجحان کے خلاف بات کرنے کے بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے یا پھر جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کررہا ہے ۔ میڈیا کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے فسادات اور فسادات میں ملوث عناصر کے خلاف کچھ بولے، خبریں شائع اور نشر کریں ۔ میڈیا کی خاموشی بلکہ مجرمانہ خاموشی سے یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ کیا ہمارا میڈیا بھی فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ اگر اس طرح کی صورتحال جاری رہتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہماری موجودہ حکومت غیردانشمندانہ انداز میں بڑی بیوقوفی کے ساتھ ملک کو ایک اور تقسیم کی جانب لے جارہی ہے کیونکہ 1940 ء میں جناح نے ایسے ہی اقلیتوں میں خوف کی نفسیات پیدا کرکے ایک علحدہ ملک قائم کیاتھا ۔