پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس
سیلوی بمقابلہ ریاست کرناٹک مقدمہ میں (5 مئی 2010ء کو تین ججس نے ایک فیصلہ سنایا)۔ سپریم کورٹ نے ایک شخص کے اس کی مرضی کے خلاف کئے گئے تین ٹسٹوں کے دستوری جواز (دستوری طور پر جائز ہونے یا نہ ہونے) پر غور کیا۔ ان تین ٹسٹوں میں نارکو انالائس، پالی گراف ٹسٹ اور برین الیکٹریکل ایکٹیویشن پروفائل (BEAP) شامل ہیں۔ عدالت حسب ذیل نتیجہ پر پہنچی۔ ٭ لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مرضی کے بغیر کئے گئے غیرضروری ٹسٹ دراصل شہادتی مجبوری کے دائرہ یا امکانات میں آتے ہیں۔ اس طرح یہ اقدام اس شخص کو جس کے زبردستی ٹسٹ کروائے گئے۔ دفعہ 20(3) کی حفاظتی ڈھال فراہم کرتی ہے۔٭ اس لئے کافی غوروخوض کے بعد ہماری یہ رائے ہے کہ کسی فرد کو غیررضاکارانہ طریقہ سے غیرضروری ٹیکنکس کے ذریعہ نشانہ بنانا یعنی اس کی مرضی و منشاء کے خلاف مذکورہ ٹسٹوں میں سے کسی ایک ٹسٹ سے بھی گذارنا اس کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے۔ دستور نے ہر فرد کی پرائیویسی یا خلوت کا احترام کرنے کیلئے کہا ہے۔ ٭ ان نتائج کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی فرد کو زیربحث ٹسٹوں اور ٹیکنکس کے تابع نہیں بنایا جانا چاہئے، چاہے وہ فوجداری مقدمات میں تفتیش کے تناظر میں ہو یا دوسری صورتوں میں کسی کو بھی اس کی مرضی کے خلاف ٹسٹوں کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس مقدمہ میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ زندگی میں غیرضروری مداخلت یا شخصی آزادی پر حملہ سے کسی کو بچانا بہت ضروری ہوتا ہے اور اس معاملے میں قانونی حیثیت یا قانونی جواز کی ضرورت جو قانون کے وجود کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری ایک جائز ریاستی مقصد کے لحاظ سے بیان کردہ ضرورت اور تناسب جو Objects اور طریقہ کار کے درمیان ایک معقول گٹھ جوڑ کو یقینی بناتا ہے اور یہ سب کچھ انہیں آزادی اور پرائیویسی حاصل کرنے اپنائے گئے ہیں۔ اس ضمن میں تاریخی فیصلہ صادر کرتے ہوئے عدالت اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہی تھی بلکہ چوکسی کی پاسبان ہونے کا سب سے بڑا فرض ادا کررہی تھی۔ شخصی آزادی اور پرائیویسی کے معاملے میں سیلوی اور کے ایس پٹا سوامی کے مقدمات میں دیئے گئے فیصلے ہنوز اچھے فیصلے مانے جاتے ہیں، لیکن موجودہ حکومت ہند کا معاملہ ایسا نہیں لگتا۔ اگر حکومت اس حقیقت کو جان لے کہ عدالتی فیصلوں کی حکومت پابند ہے۔ اس سلسلے میں (دفعہ 20 اور 21) کے تحت دیئے گئے دستوری حقوق کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر حکومت مذکورہ حقیقت کو جان لیتی تو وہ فوجداری طریقہ کار (شناختی) بل 2022ء متعارف نہ کروائی ہوتی۔ یہ بل دراصل سپریم کورٹ سے بھی آگے نکل جانے اور آزادی و پرائیویسی کے بنیادی حقوق سے انکار کی ایک عجیب و غریب کوشش ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ یہ دونوں جمہوریت کے دو انتہائی قیمتی حقوق ہیں۔
مرکز کی جانب سے متعارف کردہ بل کا مقصد اس قانون کے تحت لائے گئے افراد کے دائرہ کو وسیع کرنا تھا تاکہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے جسم کی پیمائش یا Measurement کی جاسکے اور اس کا مقصد ناقابل تصور ہے۔ اس قانون کی دفعات بدنیتی پر مبنی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس بل میں بے شمار قانونی خامیاں و کمزوریاں پائی جاتی ہیں لیکن مجھے چار دفعات پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دیجئے، یہ ایسی دفعات ہیں جو آزادی اور پرائیویسی (خلوت) جس سے دو انتہائی اہم اور قیمتی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہیں۔
چار ایسی دفعات جن پر سوال اُٹھائے جاسکتے ہیں۔
S2: جسم کی پیمائش یا Measurement کی اپنی تعریف ہے، اس میں حیاتیاتی نمونے اور ان کے تجزیے شامل ہیں۔ طرز عمل کی صفات یا اس قسم کے دیگر امتحانات؍ معائنے (جن کا سی سی پی کی دفعات 54، 53A، 53) میں حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کوئی اخراج نہیں ہے۔
سوال : آیا پیمائش یا Measurement میں نارکو انالائس، پالی گراف ٹسٹ، BEAP اور نفسیاتی جانچ شامل ہے۔
S:3 پیمائش یا Measurement کسی بھی شخص کی جاسکتی ہے جس میں کوئی بھی ایسا شخص شامل ہے جو کسی بھی قانون کے تحت مستوجب سزا جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہو یا پھر ایسا شخص بھی شامل ہے جسے کسی بھی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا یا کسی بھی احتیاطی گرفتاری کے قانون کے تحت اس کی گرفتاری عمل میں آئی ہو یا ایسا کوئی بھی شخص جسے امن کیلئے خطرہ سمجھا گیا ہو، یہ حیرت کی بات ہے کہ ہر قانون کا احاطہ کیا گیا اور اس سے بھی کہیں زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ گرفتار کردہ شخصی اور حراست میں لئے گئے شخص کو قانونی طور پر خاطی قرار دیئے گئے شخص کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس دفعہ میں ایسا کوئی احتجاجی بھی شامل کردیا گیا ہے جو پولیس رکاوٹ کو عبور کرنے کی کوشش کرسکتا ہے جہاں سی آر پی سی کی دفعہ 144 نافذ کیا گیا۔
سوال: کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی رکن پارلیمنٹ، رکن اسمبلی، سیاسی کارکن، ٹریڈ یونین سے وابستہ شخصیت، اسٹوڈنٹ لیڈر، سماجی جہدکار یا ترقی پسند مصنف یا شاعر ایسا ہے جسے کبھی گرفتار نہیں کیا گیا اور جو یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اسے کبھی گرفتار نہیں کیا جائے گا؟ (جس وقت میں نے یوتھ کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، دوسروں کے ساتھ میری بھی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ دراصل ہم لوگ چینائی میں منٹو کے مجسمہ کے قریب احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے)
S:4 : جو پیمائش کی جائے گا اسے جمع رکھا جائے گا، 75 برسوں تک محفوظ رکھا جائے گا اور نفاذ قانون کی کسی بھی ایجنسی کے ساتھ اسے شیئر بھی کیا جائے گا۔ غور کیجئے۔ اس میں ایک جرم کی تفتیش کرنے والی ایجنسی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی اتھاریٹی جسے پنچایت یا میونسپل آفیسر، ایک ہیلتھ انسپکٹر، ایک ٹریفک کانسٹبل، ایک ٹیکسی کلکٹر اور نفاذ قانون کے دیگر عہدیدار Measurement کا مطالبہ کرنے کے حقدار ہوں گے اور پیمائش لیں گے۔
سوال : ایک تعریف کی عدم موجودگی میں وہ کونسی نفاذ قانون کی ایجنسیاں ہیں جن کا دفعہ میں حوالہ دیا گیا ہے۔
S:5 : اسے S2کے ساتھ پڑھئے کوئی بھی شخص اپنے Measurement دینے کا پابند ہے۔ ایک مجسٹریٹ کسی بھی شخص کو پیمائش دینے کی ہدایت دے سکتا ہے اور اس شخص کو مجسٹریٹ کے حکم کی پابند کرنی ہوگی۔ اگر وہ حکم ماننے سے انکار کرتا ہے تو ایک پولیس عہدیدار (تعریف: ہیڈکانسٹیبل اور اس سے زیادہ درجہ کا عہدیدار) کو پیمائش لینے کا اختیار ہے اور اگر کوئی شخص اس کی مزاحمت کرتا ہے تو اسے آئی پی سی کی دفعہ 186 کے تحت سزا دی جائے گی۔
سوال: کیا پیمائش متعلقہ شخص کی مرضی کے خلاف کی جائے گی؟
وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں واضح طور پر تیقن دیا کہ سیلوی کیس میں جن ٹیکنکس کو ممنوع قرار دیا گیا۔ انہیں استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن اپنے تیقن کو بل میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔ بہرحال بل من مانی ہے، ویسے بھی آزادی غیرتوہین آمیز انسانی حق ہے اور حقوق انسانی کی تباہی دراصل حقوق انسانی کا خاتمہ ہے، باالفاظ دیگر پہ بل، آزادی کے قلب میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔