قطر میں موجود حماس کی بعض سیاسی قیادت منصوبے کو ترامیم کے ساتھ قبول کرنے تیار :بی بی سی کا انکشاف
غزہ: 3اکٹوبر ( ایجنسیز ) فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں ڈالے گی۔حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کا یہ مطالبہ ناقابلِ قبول ہے کہ حماس فلسطینی ریاست بننے سے پہلے غیر مسلح ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی کسی بھی آزادی کی تحریک نے آزادی سے پہلے اپنے ہتھیار نہیں چھوڑے، چاہے وہ جنوبی افریقہ، افغانستان، ویتنام، الجزائر یا آئرلینڈ ہو۔محمد نزال کا کہنا تھا کہ حماس صرف اسی وقت غیر مسلح ہوگی جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوگی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تنظیم امریکی صدر کے غزہ پلان پر غور کر رہی ہے اور جلد ہی اپنا مؤقف باضابطہ طور پر پیش کرے گی۔یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ، اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا اور ایک عبوری حکومت کا قیام شامل ہے۔ دریں اثناء برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کے مطابق حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے امریکہ کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حماس رہنما عزالدین الحداد کا ماننا ہے کہ یہ مصوبہ دراصل حماس کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اسی لیے وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی فریم ورک اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، لیکن اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور غزہ کی حکومت میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔ قطر میں موجود حماس کی کچھ سیاسی قیادت منصوبے کو ترامیم کے ساتھ قبول کرنے پر تیار ہیں، مگر ان کا اثر و رسوخ محدود ہے کیونکہ یرغمالیوں پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔بتایا جاتا ہے کہ غزہ میں حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ منصوبے کے تحت پہلے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔حماس رہنماؤں کو اس بات پر بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ حملے شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس قیادت پر فضائی حملہ کیا گیا۔مزید برآں، منصوبے میں غزہ کی سرحدوں پر ’سیکیورٹی بفر زون‘ قائم کرنے اور ایک عارضی بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جسے حماس ایک نئی قسم کا قبضہ قرار دیتی ہے۔ دوسری جانب، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی منصوبے کی کئی شقوں سے پیچھے ہٹنے کے اشارے دیے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی مزاحمت کرے گا۔