آسام شہریت معاملہ کی سماعت چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس دیپک گپتا کی دو رکنی بنچ کے سامنے ہوئی ۔ جمعیۃ علماء ہند اور آمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل ، سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید اور آن ریکارڈ وکیل فضیل ایوبی پیش ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ جو دو رِٹ درخواستیں عدالت میں داخل کی گئی ہے ، ان میں سے ایک جمعیۃ علماء ہند اوردوسری آمسو کی طرف سے داخل کی گئی ہے، آج انہیں دونوں پٹیشن پر بحث کے دوران دلائل پیش گئے ، جس کو ججوں نے سننے کے بعد مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ۔
قابل ذکر ہے کہ این آر سی کے سلسلے میں جو گزٹ سینٹرل گورنمنٹ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اس پر جمعیۃ علماء ہند اور آمسو نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی ، اس کے تین نکات پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیرقانونی اور غیرآئینی ہے ۔ عدالت عظمی نے اس سسلسلہ میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چار ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔
ادھر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اپنی مسرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے وکلاء کی بڑی کامیابی ہے اورنہ صرف وکلاء کی بلکہ آسام کے ان تمام مظلوم شہریوں کے لئے بھی یہ پیش رفت ایک بڑی راحت ہے جن کے نام این آرسی میں شامل نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جن نکات کی طرف عدالت کی توجہ دلائی گئی ہے اگر ان پر عدالت جمعیۃعلماء ہند کے موقف کو تسلیم کرلیتی ہے تو اس سے آسام کے ان ہندواور مسلمان شہریوں کو بلاشبہ بہت فائدہ پہنچے گا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف اورصرف انسانی جذبہ کے تحت آسام شہریت کے معاملہ کو لیکر قانونی جد و جہد میں مصروف ہے کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے جس کا حل کیا جانا انتہائی ضروری ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ملک کا آئین اپنے شہریوں کو بہت سی مراعات دیتاہے یہاں تک کے شہریت کے معاملہ میں بھی وہ متاثرشخص کو شہریت ثابت کرنے کا بھرپورموقع دینے کی وکالت کرتاہے۔