آسام میں صرف اقتدار کیلئے مسلمانوں سے نفرت

   

اپوروا آنند ، سورج گوگوئی
اسکالرس اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمیں حالیہ عرصہ کے دوران نفرت پر مبنی واقعات بلکہ مہم دیکھنی پڑی جو گرگاؤں، مدھیہ پردیش اور ملک کے مختلف مقامات پر یو پی، اتراکھنڈ اور گوا جیسی ریاستوں کے مجوزہ ریاستی انتخابات کے تناظر میں شروع کی گئی ایسے میں ہمیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ کو سمجھنا چاہئے۔ ان اسکالرس اور سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی فرقہ وارانہ بنیاد پر اقدامات کرتی ہے اور منصوبے بناتی ہے۔ کسی نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ آخر کیوں؟ یہاں تک کہ اگر صرف اور صرف ہندو رائے دہندوں کو متحرک کرنا ہو یا ان کی رائے اپنے حق میں کرنی ہوتب بھی بی جے پی اور اس کے قائدین کو مسلم دشمن نفرت کو زندہ رکھنا پڑتا ہے۔ جب تک مسلمانوں کے خلاف نفرت لوگوں کے ذہنوں میں بھری نہیں جاتی تب تک بی جے پی اپنے حامی رائے دہندوں کو مراکز رائے دہی یا پولنگ بوتھ پر نہیں لاسکتی۔ جہاں تک دوسری جماعتوں کا تعلق ہے، انہیں بھی ووٹوں کی ضرورت ہے۔ یہ جماعتیں ایک ایسا بیرونی گروپ کیوں نہیں بناتیں جو ان کی اپنی پارٹیوں کے داخلی گروپ کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔
بہ آسانی نفرت پیدا کی جاسکتی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست میں بی جے پی کو مخالف بنگلہ دیشی احساسات و جذبات سے زبردست فائدہ پہنچا ہے۔ تقریباً ایک صدی سے آسامی قوم پرستوں نے یہ بیج بویا تھا اور اس کا پھل بی جے پی کاٹ رہی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران چیف منسٹر ہیمنتا بسوا سرما نے ایک بیان دیا، اس بیان کی مذمت کی جانی چاہئے۔ لیکن افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ آسامی میڈیا نے اس بیان کی ستائش کی۔ وہ بیان چیف منسٹر نے گوروکھوتی ضلع درانگ کے تناظر میں دیا، جہاں دو شہریوں کو گولی مار دی گئی تھی اور جہاں سے ایک ایسی تصویر منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک سرکاری کیمرہ مین کو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لینے والے کسان کو لاتیں مارتے اور اس کے سینے پر اُچھل کود کرتے ہوئے دیکھا گیا، اس واقعہ نے ساری دنیا میں صدمہ کی لہر دوڑا دی اور لوگ سوچنے لگے کہ کیا کوئی انسان اس حد تک گر سکتا اور انسانیت کے ساتھ ساتھ قانون کی دھجیاں اُڑا سکتا ہے۔ ایک مسلم کسان جسے گولی ماری گئی تھی اور وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا، پولیس کے ساتھ پہنچے کیمرہ مین نے اس کے سینے اور پیٹ پر لاتیں ماریں اور اس پر کودنے لگا۔ اس دردناک واقعہ پر بھی چیف منسٹر ہیمنتا بسوا سرما کا ضمیر ٹس سے مس نہیں ہوا ۔ ان دو ہلاکتوں کی مذمت کرنے کی بجائے اسے معقول قرار دینے کی کوشش کی اور اس کیلئے انہوں نے یہ کہا کہ سرکاری اراضیات پر ناجائز قابضین کے خلاف مہم جاری رہے گی۔بسوا سرما ریاست کے چیف منسٹر ہیں، وہ عوام کی بھلائی کے نگران ہیں جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں قتل کردیا گیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بسوا سرما نے ان دونوں مہلوکین کے غم زدہ ارکان سے تعزیت اور ہمدردی کا ایک لفظ بھی نہیں کہا، اس کے بجائے چیف منسٹر نے سوال کیا کہ انہوں نے احتجاج کیوں کیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ اس سفاکی اور ظلم و جبر کے کئی ماہ بعد چیف منسٹر نے ان ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ وہ ماضی کے ظلم کے بدلے میں کی گئی کارروائی تھی کیونکہ 1983ء میں ضلع درانگ میں نوجوان آسامی لڑکوں کا قتل کیا گیا اور آج آسام ان اموات کا کچھ حد تک بدل لینے کے قابل ہوگیا۔ آسام میں پہلے این آر سی مہم چلائی گئی اور اس کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کو آسام سے نکال باہر کرنے کیلئے ایک قانونی اور سکیولر طریقہ اپنایا گیا اور وہ غیرمجاز قابضین کے خلاف مہم کا آغاز تھا اور اس بہانے آسامی مسلمانوں کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کہتے ہیں کہ وہ زمین آسامیوں کی ہے اور انہوں نے قانونی لوگوں سے وہ اراضی حاصل کرلی ہے۔ چیف منسٹر یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ صرف زمین ہی نہیں دوسرے وسائل بھی مسلمانوں نے ان سے چھین لئے ہیں۔ اپنی تقاریر کی کتاب میں چیف منسٹر نے دعویٰ کیا کہ بدرالدین اجمل کی قیادت میں (بدرالدین اجمل نے سوپر 16 جیسے ادارے شروع کئے ہیں) ہم سے طب، تعلیم اور انجینئرنگ کی نشستیں چھیننے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔ ہمارے آسامی نوجوانوں میں فارماسسٹ ، نرسیس اور لیباریٹری ٹیکنیشینس بننے میں دلچسپی کا فقدان پایا جاتا ہے اور مسلمان ان پیشہ وارانہ کورسیس میں داخل ہورہے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب کے پڑھنے والوں کو انتباہ دیا کہ مسلمان مختلف تیکنیکی پیشوں میں داخل ہوچکے ہیں، کیونکہ آسامی نوجوان ان پیشوں میں کام کرنا نہیں چاہتے۔ ان حالات میں ’’میاں‘‘ بتدریج ہماری سماجی و معاشی زندگی کے اہم مقامات میں داخل ہوکر موقف مضبوط کررہے ہیں۔ چیف منسٹر آسام نے اپنی کتاب میں جو زبان استعمال کی ہے ، اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ آسامی باشندوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ آج فرقہ پرست حساس مسئلوں پر مسلمانوں کی خاموشی یا ان کے عدم ردعمل سے برہم ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان شرپسندی پر ردعمل کا اظہار کریں لیکن مسلمان بڑے صبر و تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ طلاق ثلاثہ ہو یا پھر بابری مسجد کا فیصلہ اس پر مسلمانوں نے کافی صبر کیا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے نفرت اور تشدد بلاآخر ہندوستان کو تقسیم کردے گا ۔ پہلے ایک معاشرہ کو تقسیم کرے گا اور پھر ایک قوم کو۔