آسام میں مسلمانوں کیساتھ حکومت کا سوتیلاسلوک

   

Ferty9 Clinic

امیت کمار
وزیراعظم نریندر مودی جب بی جے پی کے ترجمان اور جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے، تو ایک دن اشوکا روڑ پر پارٹی صدر دفتر میں یومیہ پریس کانفرنس کے دوران وہ ہندوستان کی روایتی مہمان نوازی، ہندو کلچر کی بے پناہ برداشت اور تحمل پر گفتگو کر رہے تھے اور کہا تھا کہ صدیوں سے ہندوستان نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا۔ ’’دی ہندو‘‘ کی پالیٹیکل ایڈیٹر نینا ویاس، جو بی جے پی کی خبریں شائع کرنے کی ذمہ دار ہیں انہوں نے ان کو آڑے ہاتھوں لے کر سوال کیا کہ ان کی پارٹی پھر ہندو کلچر کے برخلاف، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبہ کو انتخابی موضوع کیوں بناتی ہے؟ اس سوال پر مودی کا پارہ چڑھ گیا اور اسی کے ساتھ ہی انہوں نے پریس کانفرنس ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح جب ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی قرارداد پر بحث ہو رہی تھی، تو ایک مسلمان رکن، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے، نے طنزیہ لہجے میں شکوہ کیا کہ پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے کیونکہ قرار داد صرف مسلمانوں کے مسائل سے بھری پڑی ہے۔ بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدرکرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا، یونیفارم سیول کوڈ لاگو کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، یہ سب مسلمانوں کے متعلق ہی ہیں۔ حال ہی میں جب شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ سات سال بعد اختتام پذیر ہوگیا، تو اس کے نتائج حکمراں بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ ہوگیا ہے۔ چونکہ یہ بی جے پی کا ہی مرکزی ایجنڈہ تھا، اس لئے این آر سی کی فہرست، ان سے نگلتے نہ اگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی 39.9 ملین آبادی میں ایک تو محض 19لاکھ چھ ہزار افراد ہی ایسے پائے گئے جو شہریت ثابت نہیں کر پائے۔ دوسرا حقائق پر کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق ان میں سے11 لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف آٹھ لاکھ ہی مسلمان ہیں۔ ان میں بھی بیشتر ایسے ہیں جن سے فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں ہوگئی تھیں، خاندان کے متعدد افراد کے ناموں میں ہجے کا فرق ہے۔ ابھی چار ماہ کا وقت اپیل کے لیے اور ناموں کی تصحیح کے لئے دیا گیا ہے۔رضا کاروں کے مطابق ا ن میں سے بھی بیشتر فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔ چونکہ 2011کی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34.22 فیصد ہے اور تناسب کے اعتبار سے ہندوستان میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے، 9اضلاع میں ان کی واضح اکثریت ہے، جو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھڑکتی آرہی ہے۔ گزشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اس میں تقریباً چالیس لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کانام توشامل تھا ان کے لڑکوں کا نہیں تھا، کسی لڑکے کا تھا تو اس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا، ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ مہلت دی گئی تاکہ جو شامل ہونے سے رہ گیا ہے وہ اپنے دستاویزات دکھا کر اپنا نام شامل کروائے۔ جن کا نام غلط درج ہوگیا ہے وہ تصحیح کروالیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حتمی فہرست جاری کرنے کی تاریخ 31اگست رکھی گئی تھی۔ابھجیت شرما جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کی کارروائی شروع کی تھی ان کا کہنا ہے کہ نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں۔ غیر ملکی افراد کی تعداد 40 سے 50لاکھ کے قریب ہونی چاہئے تھی۔ فی الحال جن 19لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیشتر ایسے لوگ ہیں، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میں شہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی درخواست دی ہے۔ انہوں نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ اس پورے عمل کا احتساب بھی کیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پورے عمل پر 13بلین روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نتیانند اپادھیائے نے کہا کہ ان کے طبقے کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں۔ یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ نیپال نژاد گھورکھا بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین، جس نے 80ء کے دہے میں آسامی بنام غیر آسامی کے مسئلے کو لیکر ایجی ٹیشن کی قیادت کی، کا کہنا ہے کہ این آر سی کی فہرست ان کو منظور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہے۔ 2016 میں وزیر مملکت برائے داخلہ نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ملک بھر میں تقریباً20 ملین غیر قانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔ اس سے قبل 2004 میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد12ملین بتائی تھی اورکہا تھا اس میں پانچ ملین آسام میں مقیم ہیں۔ بی جے پی جو آسام اور مرکز میں برسراقتدار ہے اب مطالبہ کر رہی ہے کہ برہمپتر ویلی کے سبھی ضلعوں اور بارک ویلی کے دو ضلعوں کی 20 فیصد آبادی کی ازسر نو تصدیق ہونی چاہئے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ نشیبی آسام جو مغربی علاقہ ہے، بالائی آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔ 2019کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے ریاست کی 14 میں سے نو حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً40 فیصد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ میں زمین اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔انصاف کے دوہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی مرکزی حکومت لاکھوں غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں افراد کو بنگلہ دیشی بتا کر شہریت سے محروم کر نے کو کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے ا علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لئے اختیار کئے جا رہے ہیں کہ آسام کی 35 فیصد اور جموں و کشمیر کی 68 فیصد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ ہندوستانی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ حکومت کے حالیہ اقدامات عندیہ دے رہے ہیں کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کی شازش کو حقیقی روپ دینا چاہتے ہیں۔٭