آسام کے مسلمانوں کا آئین سے یقین ختم کرنے کی منظم سازش

   

کرناٹک کی طرح ملک بھر میں نفرت کے خلاف مہم کی ضرورت، دانشوروں کا اظہار خیال

حیدرآباد۔16جولائی (سیاست نیوز) ذکیہ جعفری‘ بلقیس بانو اور مظفر نگر کے سلمیٰ نے انصاف کے احساس کو زندہ رکھا ہے ۔ایسے حالات میںمسلمانوں کو تنہا چھوڑنا یا مسلم سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے حوالہ کردینا ٹھیک نہیںہوگا۔مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلانے کی اشد ضرورت ہے کہ ہندوستان پر ان کا بھی برابر کا حق ہے ‘ اس ملک کے انصاف کا عمل ان کے لئے بھی ہے وہ جو انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں اس میں ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور مستقبل میںبھی ساتھ کھڑے رہیںگے۔ ان خیالات کا اظہار دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپورا آنند نے لامکان بنجارہ ہلز میںاسوسیشن فار پروٹوکشن آف سیول رائٹس( اے پی سی آر) تلنگانہ چیاپٹر کے زیر اہتمام بلڈوز ڈیموکریسی ‘ نفرت کا بازار اورریاستی جبر کے عنوان پر منعقد ہ ایک اجلاس سے خطاب کرتے یوئے ان کا خیالات کا اظہار کیا۔ یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانی وصدر ندیم خان کے علاوہ پروفیسر عامر اللہ خان ‘ سماجی جہدکار مانوی آرتی ‘ اور آسام میں بوڈو لینڈ تحریک کے سرگرم کارکن وسماجی جہدکار ٹائسن حسن نے بھی اجلاس سے اپنے خیالات کا اظہار کیا‘ اے پی سی آر تلنگانہ یونٹ کے برکت علی نے کاروائی چلائی۔پروفیسر آنند نے کہاکہ کرناٹک میں منظم انداز میںنفرت کو پھیلانے کاکام کیاگیاتھا مگر وہاں کی عوام نے نفرت کے ان سوداگروں کی کوششوں کوناکام بنادیا۔ جبکہ کانگریس کے اقتدار میںآنے کے بعد ریاست کے چیف منسٹر اور نائب چیف منسٹر نے پولیس کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ اجلاس طلب کرتے ہوئے نفرت کی ایسی ساری دوکانوں کو فوری بند کرنے اور نفرت پھیلانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ہدایت دی ۔ اپروآنند نے ایودھیامیںرام مندر کی تعمیر کے سلسلے میںعدالت کے فیصلے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس آف انڈیا کی نگرانی والی دستوری بنچ کے فیصلے نے سب کو حیرت میںڈال دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اپنے فیصلے میںمذکورہ بنچ نے بابری مسجد کومقفل کرنا‘ شیلانیاس کرنا‘ رتھ یاترا کے ذریعہ بابری مسجد کو منہدم کرنا کو غلط او رغیر قانونی تو قراردیا ہے مگر اپنے فیصلے میںاسی مقام پر مندر کی تعمیر کی اجازت یہ کہتے ہوئے دی کہ کروڑ ہالوگوں کی آستھا اس سے جوڑی ہوئی ہے لہذا رام مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیاجاتا ہے۔ یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانی ندیم خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نفرت کے خلاف ایک اتحاد کی شروعات عمر خالد ‘ خالد سیفی کے ساتھ ملک کر انہوں نے کی تھی مگر آج یہ دونوں جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خالدسیفی کی ضمانت پر سنوائی مکمل ہوگئی ہے ‘ جج نے اپنا فیصلہ محفوظ کردیا مگر اسی جج کا اب تبادلہ ہوگیا ہے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ اس طرح ازسر نو ضمانت کی کاروائی کرنی پڑیگی ۔پروفیسر عامر اللہ خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ حالات کے لئے ملک کے امن پسندی شہریوں کو ذمہ دار ٹہرایا ۔ انہوں نے کہاکہ اگرہم اسی طرح خاموش بیٹھے رہیںگے تو فرقہ پرست طاقتیں اپنے منصوبوں کو بڑی آسانی کے ساتھ روبعمل لاتے رہیں گے۔انہوں نے کہاکہ کرناٹک کے بشمو ل ملک بھرمیںہندوتوا ذہنیت کو بڑھاوا دینے میںمیڈیا نے کافی اہم رول ادا کیاہے۔انہوںنے کہاکہ چھ لڑکیوں کے حجاب کے واقعہ کو بڑے ہی منظم انداز میںسارے کرناٹک میںمیڈیا نے ہی پھیلایا۔ ٹائسن حسن نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آسام میں این آر سی کے نام پر 19لاکھ ناموں کو فہرست سے باہر رکھا گیاہے ۔ فارن ٹربیونل کی اب تک شروعات نہیں ہوئی ‘ مشکوک شہریوں کو ڈی ووٹرس کے زمرے میںڈال کر ان کا حق رائے دہی چھین لیاگیاہے۔دوبارہ ویریفکیشن (جانچ) کی بات کی جارہی ہے جبکہ ہندوستانی ہونے کے باوجود بار بار آسام کے شہریو ں کو اپنے دستاویزات دیکھانا پڑرہا ہے۔بنگلہ دیش کے نام پر ہنگامہ کھڑا کیاجارہا ہے اور گول پاڑہ میںآسام حکومت نے ٹرانزٹ کیمپ قائم کئے ہیںجس میں ہزاروں لوگوں کو قیدی بناکر رکھا گیاہے۔ اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیاجارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ پولیس انکاونٹرس میں61کی موت ہوئی ہے جبکہ 121زخمی ہیں۔ ان انکاونٹرس میں چھ کی تحقیقات ہوئی ہے جو جانچ میں فرضی ثابت ہوئے ہیں۔ آسام کے مسلمانوں کا ائین سے یقین ختم کرنے کی منظم سازش کی جارہی ہے۔ چیف منسٹر آسام برسرعام میاں مسلمانوں کو افرتفری کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے پولیس کی کاروائی کو حق بجانب قراردے رہے ہیں۔ آسام میںجمہوریت مبینہ باقی نہیںرہی ہے۔