آسام کے مسلمانوں کو کیا احتجاج کا بھی حق نہیں؟

   

رام پنیانی
دس آسامی شاعروں کے خلاف ایک ایف آئی آر درج رجسٹر کی گئی (10 جولائی 2019)۔ یہ شعراء زیادہ تر مسلمان ہیں اور مشعل راہ رہے ہیں نیز ’میاں شاعری‘ کے روشن ستارے ہیں۔ اس رجحان کی شروعات کرنے والے حفیظ احمد کی طرف سے ایک نمونہ یوں ہے:
لکھو، لکھ دو…
میں میاں ہوں، میرا سلسلہ نمبر NRC میں 200543 ہے، میرے دو بچے ہیں۔ ایک اور کی آئندہ موسم گرما میں ولادت متوقع ہے۔ کیا تم اُس سے (بھی) نفرت کروگے، جیسے تم مجھ سے کرتے ہو؟
ایسی کئی نظمیں مسلمانوں کے غم و غصہ کی عکاسی کررہی ہیں، جن پر بنگلہ دیشی کا ٹھپہ لگا دیا گیا اور جن کو بیرونی شہری کہلائے جانے کی رسوائی کا سامنا ہے۔ یہ نظمیں مختلف مقامی بولیوں میں ہیں، بعض آسامی میں، اور بعض انگریزی میں بھی ہیں۔ ایف آئی آر میں درج ہے، ’’ان سطور کے ذریعے ملزمین ہماری ریاست کا امیج دنیا کی نظروں میں ظالم ریاست کے طور پر پیش کررہے ہیں، جو بالعموم قوم اور بالخصوص آسام کی سکیوریٹی کیلئے خطرہ ہے…‘‘ بعض نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ شاعری چونکہ مقامی بولیوں میں ہے، اس لئے آسامی زبان کی توہین کے مترادف ہے۔ اس تنقید کے پیش نظر احمد نے معذرت خواہی کرلی۔ انھوں نے یہ بیان بھی کیا کہ وہ آسامی زبان کے فروغ کی تحریک کا حصہ رہے ہیں، اس لئے اُن کا آسامی زبان کے خلاف ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے۔
اس سارے معاملے سے جو مسئلہ ابھرتا ہے وہ ہمہ رخی ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ آسام میں شہریت کے مسئلے کے پس منظر میں پیش آرہا ہے۔ آسام میں تقسیم ہند کے وقت بھی قابل لحاظ مسلم آبادی تھی، اس حد تک کہ مسٹر جناح نے آسام کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہا تھا۔ اس کے بعد آسام میں 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی طرف سے کثیر نقل مکانی دیکھنے میں آئی اور پھر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی یہ عمل دیکھا گیا۔ آبادی کی مسلسل منتقلی ہوتی رہی ہے، اور تارکین ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔
اب جبکہ آسام میں این آر سی کا عمل جاری ہے، تقریباً 40 لاکھ افراد پر مصیبت آن پڑی ہے کیونکہ اُن کے پاس متعلقہ دستاویز نہیں ہے اور اُن کے نام پہلی فہرست سے غائب ہیں۔ ہندو قوم پرستی کا ایجنڈہ تیزی سے بے نقاب ہورہا ہے۔ چنانچہ سٹیزن شپ ترمیمی بل میں سکھوں، جین اور ہندوؤں نہ کہ مسلمانوں کو شہرت عطا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ این آر سی کی قطعی فہرست 31 اگست کو جاری کی جانے والی ہے اور آسام میں ہر طرف کشیدگی اس بات پر ہے کہ رجسٹر میں عدم موجود ہندو تو ترمیمی بل کے تحت شہریت حاصل کرلیں گے جبکہ مسلمانوں کو اخراج کا سامنا لاحق ہوگا۔ محمد ثناء اللہ ریٹائرڈ آرمی آفیسر کا حالیہ کیس ہمارے سامنے مثال ہے۔ انھیں محروس افراد کے کیمپ کو بھیج دیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقی شہریوں کو تک خارج اور اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کئے جانے کا امکان ہے۔ مسٹر امیت شاہ کا این آر سی کو سارے ملک تک وسعت دینے کا ارادہ ایسے قوی اندیشے سے بھرا ہے کہ شہریت کو مذہب سے جوڑے جانے کا امکان ہے۔
اس میاں شاعری یا احتجاجی شاعری سے کیا عکاسی ہوتی ہے؟ سب سے پہلے یہ نہایت واضح ہے کہ یہ آسامیوں یا آسام کے خلاف نہیں ہے۔ زیادہ تر یہ مسلمانوں کے غم و غصہ کا اظہار ہے۔ مقامی شہریوں کو ’بیرونی‘ ہونے کے الزام کا مسلسل سامنا ہورہا ہے۔ ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ پہلے ’مشکوک ووٹر‘ یا D Voter کا عمل چلایا گیا، پھر فارینرس ٹربیونل نے لوگوں کو حراستی کیمپوں میں ڈال دیا، اور اب نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کا عمل چل رہا ہے۔ عوام کی شہریت کی مسلسل آزمائش ہوتی رہی ہے۔ اگرچہ بنگلہ بولنے والے ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا، لیکن ترمیمی شہریت بل میں انھیں راحت مل گئی، جو ہندوؤں، سکھوں اور جین لوگوں کو پناہ گزین اور مسلمانوں کو درانداز باور کرتا ہے۔ اس طرح مسلم کمیونٹی پر مسلسل ٹھپہ لگتا رہا ہے۔ بیرونی شہریوں کے طور پر خاص کر مسلمانوں کو نشانہ بنانا، پاکستان جاؤ کے نعرے لگانا بعض مسلم قائدین اور ممتاز شہریوں کیلئے بھی مستقل خطرہ رہا ہے، جو اپنی رائے ظاہر کرتے یا برسراقتدار حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔
گزشتہ دو دہوں کے دوران 9/11 کے بعد گلوبل اسلاموفوبیا اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا نیز مذہب کی آڑ میں تیل کی دولت پر کنٹرول حاصل کرنے کی سیاست عالمی سطح پر ماحول کو کافی بگاڑ چکی ہے۔ قومی سطح پر 1992-93ء کا زبردست فساد، گجرات کے 2002ء فسادات اور مظفرنگر میں 2013 ء دنگوں کے تناظر میں مسلم کمیونٹی کے تعلق سے عام نظریہ پستی کا شکار ہوا ہے۔ ہندوستانی مسلم برادری جو دیگر مذہبی برادریوں کے ساتھ میل ملاپ رکھتی ہے، اس سرزمین کے متضاد روایات میں زندگی بسر کرتی ہے اور یہاں کی سماجی زندگی کا حصہ رہی ہے، اسے اکثریتی کمیونٹی کیلئے خطرہ باور کرایا جارہا ہے۔
مظلوم برادری کا ردعمل مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ مجھے پہلی بار 2005-06ء میں حیرت ہوئی جب ہندوستانی مسلمانوں، مصنفین، سماجی جہدکاروں، اور دیگر ماہرین کا بڑا حصہ یکجا ہوا اور اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ ’’ہندوستان میں آج مسلم ہونے کا مطلب کیا ہے؟‘‘ محدود ہوجانے کا بڑھتا رجحان موجودہ وقت کا سب سے بڑا نتیجہ ہے۔ اندرون کمیونٹی قدامت پسند عناصر کی بڑھتی گرفت اس برادری کو درپیش عدم سلامتی کے احساس کا راست نتیجہ ہے۔ میاں شاعری اس طرح سے بالخصوص آسام میں مسلم کمیونٹی کو درپیش پریشانی کا اظہار ہے۔ اس طرح کی پریشانی ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہے۔ شہریت کو تسلیم کرنا عوام کی زندگی کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ آسام میں میاں جو عام طور پر تعظیم کا لقب ہے، اب اس کا مطلب بنگلہ دیشی مسلمان، درانداز، بیرونی شہری ہوچکا ہے۔ عوام میں اس کو اہانت آمیز اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ جمہوری اخلاق کی قدر کرنے والوں کو متاثرہ کمیونٹی کی اندرونی کیفیت پر بھی نظر ڈالنا چاہئے جو پست ہوچکی ہے۔ غم و غصہ کا اظہار ہمہ رخی ہے۔ ہم نے دلتوں کے احتجاج کو نامدیو دھسال، جے وی پوار و دیگر کی اثرانگیز شاعری میں دیکھا ہے۔ خواتین کی تحریک نے ہندوستان میں ادب کے انبار لگائے جس میں صنف نازک کی مشکلات کی عکاسی کی گئی۔ ان سب کو ہم وطن شہریوں کا درد سمجھنا چاہئے کیونکہ ہم مساوات والا سماج تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں۔ دل کو چھولینے والی نظموں کی کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہندوستان کی تعمیر کیلئے کوششیں ہونی چاہئیں جہاں تحریک آزادی کے اقدار کو فروغ دیا جائے اور برقرار رکھا جائے، جو ہمیں واحد برادری کے طور پر متحد رکھتے ہیں۔
[email protected]