سڈنی: ایک 62 سالہ آسٹریلیائی خاتون کو اپنے مردہ شوہر کے اسپرمز حاصل کرنے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ خاتون کا موقف تھا کہ خاوند کی وفات سے پہلے وہ دونوں ایک بچہ پیدا کرنے پر غور کر رہے تھے۔آسٹریلیا میں بدھ کو اس مقدمے کے حوالے سے قانونی دستاویزات جاری کر دی گئی ہیں، جن کے مطابق سن 2019 میں ایک کار حادثے کے دوران اس جوڑے کا31 سالہ بیٹا وفات پا گیا تھا اور اس واقعے کے بعد انہوں نے ایک بچہ پیدا کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔اس جوڑے کی ایک 29 سالہ بیٹی بھی تھی لیکن بیٹے کے کار حادثے سے چھ سال قبل وہ ماہی گیری کے سفر کے دوران ڈوب کر ہلاک ہو گئی تھی۔ان تکلیف دہ واقعات کے بعد اس جوڑے نے تحقیق شروع کی کہ آیا 61 سالہ شوہر کے نطفے کو حمل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟اسی دوران گذشتہ سترہ دسمبر کو خاوند کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد بیوی نے اسپتال کے مردہ خانے میں درخواست دی کہ اس کے مردہ شوہر کے اسپرمز کو جمع کرتے ہوئے ذخیرہ کر لیا جائے۔لیکن قانونی وجوہات کی بنا پر اسپتال نے خاتون سے کہا کہ وہ ہنگامی طور پر سپریم کورٹ آف ویسٹرن آسٹریلیا سے اجازت لے کر آئیں تاکہ ایسا کیا جا سکے۔محققین کا کہنا ہے کہ تولیدی بافتوں کو (اسپرمز) مثالی طور پر موت کے ایک سے دو دن کے اندر اندر جمع کرتے ہوئے ذخیرہ کیا یا محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔اس دوران سپریم کورٹ آف ویسٹرن آسٹریلیا کے جج فیونا سیوارڈ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اسپرمز کو جمع اور ذخیرہ کیا جا سکتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ حکم بھی دیا کہ انہیں فرٹیلائزیشن کے لیے استعمال کرنے سے پہلے ایک علیحدہ عدالتی حکم کی ضرورت ہو گی۔مردہ شوہر کے اسپرمز کو حمل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس بات کی اجازت عدالت نے 21 دسمبر کو دی تھی لیکن یہ قانونی دستاویزات اب جاری کی گئی ہیں۔اس کیس میں خاتون کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے۔