محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔20۔اکٹوبر۔تلنگانہ کے ضلع نظام آباد میں روڈی شیٹر ریاض کے پولیس تحویل میں انکاؤنٹر نے پولیس کی کارکردگی پر دوبارہ سوال اٹھانے شروع کردیئے ہیں اور یہ کہا جا نے لگا ہے کہ ملک میںقانون کی اجارہ داری کو پامال کیا جانے لگا ہے۔ ہندستانی قوانین جرم ثابت ہونے تک ملزم کو منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہے لیکن بیشتر معاملات میں جہاں غریب پسماندہ ‘ اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والوں پر الزام ہوتے ہیں ان پر عائد الزامات کو ثابت ہونے سے قبل ہی ان کے مکانات کے انہدام ‘ پولیس حراست میں انکاؤنٹر کے نام پر قتل کے واقعات پیش آنے لگے ہیںجو کہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ریاض کی پولیس حراست میں موت کے سلسلہ میں پولیس کی جانب سے جو کہانی سنائی جا رہی ہے کہ نظام آباد سرکاری دواخانہ میں ریاض زیر علاج تھا اور اس نے حفاظتی دستہ میں موجود پولیس اہلکار کی بندوق چھین کر حملہ کی کوشش کی جس کے جواب میں پولیس نے فائرنگ کرتے ہوئے اسے قتل کردیا اس کہانی پر یقین کرنا دشوار ہے کیونکہ گذشتہ شب ہی اس بات کی اطلاعات موصول ہونے لگی تھیں کہ ریاض کا انکاؤنٹر کردیا گیا ہے لیکن پولیس نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے اس کے زیر علاج ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن آج دن میں دواخانہ میں ریاض کے انکاؤنٹر کی توثیق کی گئی ہے ۔ ڈائریکٹر جنرل پولیس مسٹر شیودھر ریڈی نے پولیس کی جانب سے کئے گئے اس قتل کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ریاض کو گولی نہیں ماری جاتی تو ایسی صورت میں ریاض کے ہاتھ میں موجود بندوق سے کسی شہری کی جان جاسکتی تھی ۔ ڈائریکٹرجنرل پولیس شیودھر ریڈی کے جائزہ حاصل کرنے کے بعد پولیس اہلکار کے قتل کا سامنا کررہے روڈی شیٹر ریاض کا انکاؤنٹر تلنگانہ میں قانون کی اجارہ داری کو پامال کرنے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ مسٹر شیودھر ریڈی سال 2015 میں جب تلنگانہ کے انٹلیجنس چیف کے عہدہ پر فائز تھے اس وقت بھی وقار الدین اور دیگرکے انکاؤنٹر میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔اپریل 2015میں 5 زیر دریافت قیدی جن میں وقارالدین ‘ سید امجد ‘ محمد ذاکر‘ اظہار خان اور محمد حنیف شامل تھے ان پر یہ الزام عائدکرتے ہوئے ہتھکڑیوں میں بندھے ہوئے ان نوجوانوں کو قتل کردیا گیا تھا کہ یہ نوجوان پولیس اہلکاروں کی بندوق چھین کر ان پر حملہ کرتے ہوئے فراراختیار کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اب ریاض کے انکاؤنٹر کے معاملہ میں بھی یہی کہانی دہرائی جانے لگی ہے اور دعویٰ کیا جا رہاہے کہ سرکاری دواخانہ میں زیر علاج قیدی پولیس اہلکار کی بندوق چھین کر اس پر حملہ کی کوشش کر رہا تھا۔بعدازاں قومی انسانی حقوق کمیشن نے پولیس انکاؤنٹر میں قتل کئے جانے والے 5نوجوانوں کے لواحقین کو فی کس 5لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ نظام آباد کے سرکاری دواخانہ میں ہوئے اس انکاؤنٹر میں قتل کے واقعہ کے علاوہ آلیر انکاؤنٹر میں پائی جانے والی مماثلت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں بھی پولیس کو سبکی اٹھانی پڑسکتی ہے۔ 2016 میں گینگسٹر نعیم کے انکاؤنٹر کے سلسلہ میں محکمہ پولیس کے عہدیداروں کی جانب سے موجودہ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس مسٹر بی شیودھر ریڈی کو اس کا کریڈٹ دیتے ہیں لیکن نعیم کے انکاؤنٹر کے بعد مسٹر بی شیودھر ریڈی کو انٹلیجنس چیف کے عہدہ سے ہٹادیا گیا تھا لیکن ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد 2023 میں دوبارہ انٹلیجنس چیف کے عہدہ کی ذمہ داری تفویض کی گئی اور اب وہ ریاستی پولیس فورس کے سربراہ ہیں۔نظام آباد میں ہوئے ریاض کے انکاؤنٹر کے بعد مختلف گوشوںسے استفسار کیا جارہا ہے کہ آیا تلنگانہ ریاست اترپردیش میں تبدیل ہوچکی ہے جہاں الزامات کی بنیاد پرملزمین کے انکاؤنٹر اور ان کے مکانات کو منہدم کرنے کی کاروائی کی جاتی ہے اور الزامات کی منصفانہ سماعت سے قبل ہی کاروائی کے ذریعہ انصاف مکمل ہونے کی دہائی دی جانے لگتی ہے۔