وقف بورڈ اور حج کمیٹی صدورنشین کے راست تقرر کا حکومت کو اختیار نہیں، مرکزی ایکٹ کی خلاف ورزی
حیدرآباد۔/18 جولائی، ( سیاست نیوز) آندھرا پردیش کی جگن موہن ریڈی حکومت نے 135 کارپوریشنوں اور اداروں کے صدورنشین کو نامزد کیا ہے جن میں 11 مسلم قائدین شامل ہیں۔ حج کمیٹی، اردو اکیڈیمی اور وقف بورڈ کے علاوہ اقلیتی فینانس کارپوریشن کیلئے صدور نشین کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔ حکومت نے پہلی مرتبہ اے پی شیخ کارپوریشن تشکیل دیتے ہوئے شیخ عائشہ بیگم کو صدرنشین مقرر کیا ہے۔ جگن موہن ریڈی نے سرکاری اداروں میں مسلمانوںکو موثر نمائندگی دینے کے تحت یہ فیصلہ کیا لیکن وقف بورڈ اور حج کمیٹی کے صدورنشین کا تقرر قانونی تنازعہ کا شکار بن چکا ہے۔ اردو اکیڈیمی اور اقلیتی فینانس کارپوریشن جیسے اداروں کیلئے حکومت راست طور پر صدرنشین کا انتخاب کرسکتی ہے جبکہ ارکان کے ناموں کا بعد میں اعلان کیا جاسکتا ہے برخلاف اس کے وقف بورڈ اور حج کمیٹی دونوں مرکزی ایکٹ کے تابع ہیں جس کے تحت دونوں اداروں کے ارکان ملکر اپنے صدور نشین کا انتخاب کرتے ہیں۔ حکومت نے حج سے متعلق پارلیمانی ایکٹ 2001 اور سنٹرل وقف ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں اداروں کے صدورنشین کو نامزد کردیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود سے اس بارے میں کوئی وضاحت طلب نہیں کی گئی اور چیف منسٹر کے دفتر سے تقررات کا اعلان کردیا گیا۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ طریقہ کار بلکہ قانون کی خلاف ورزی تقررات کو عدالتوں میں چیلنج کا موقع فراہم کرے گی۔ عہدیداروں نے کہا کہ اگر کوئی عدالت میں چیلنج نہ بھی کرے تب بھی دونوں اداروں کے صدورنشین کا راست طور پر انتخاب کرنا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ وقف بورڈ میں ایم پی، ایم ایل اے، متولی اور بار کونسل کے زمرہ جات کیلئے باقاعدہ الیکشن ہوتا ہے جبکہ حکومت شیعہ رکن، مذہبی اسکالر، سماج کی نامور شخصیت اور بعض سرکاری عہدیداروں کو بطور رکن نامزد کرتی ہے۔ تمام ارکان آپس میں متفقہ طور پر یا رائے دہی کے ذریعہ صدرنشین کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی طرح حج کمیٹی میں ایم پی، ایم ایل اے، ایم ایل سی، مذہبی اسکالر، مجالس مقامی کے نمائندے اور حکومت کے نامزد ارکان اپنے اجلاس میں صدرنشین کا انتخاب کرتے ہیں۔ اجلاس سے قبل حکومت صدرنشین کے نام سے ارکان کو واقف کراتی ہے جس کے مطابق صدرنشین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آندھرا پردیش حکومت ایکٹ کی خلاف ورزی کو کس طرح درست کرے گی۔
